ریاست مدینہ اور آٹے کا بحران

ہفتہ 25 جنوری 2020

 Hasnain Chaudhry

حسنین چوہدری

حضرت عمربن خطاب نے اپنے عہد حکومت میں کہا تھا کہ اگر میری ریاست میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا جواب دہ بھی عمر ہے اگر اس تناظر میں موجودہ ریاست مدینہ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں ہر دوسرا آدمی ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے اور اس پر سونے کا سہاگا یہ کہ تبدیلی کے ریکارڈ دعوے کرنے والی تبدیلی سرکار جو کہ کروڑوں نوکریوں، لاکھوں گھر، وافر مقدار میں وسائل کی دستیابی اور وسیم اکرم پلس اور بقول فیاض الحسن چوہان شیر شاہ سوری  کا لقب پانے والے بزدار جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلی ہیں  جس کی معیشت کا بڑا حصہ ذراعت سے آتا ہے اور یہاں ریکارڈ گندم کاشت کی جاتی ہے اور بیرون ممالک برآمد بھی کی جاتی ہے کے عہد حکومت میں عوام آٹے کے حصول کے لیے دربدر زلیل و خوار ہورہی ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ بحران حقیقی ہے یا مصنوعی ؟ اور اس کے کیا عوامل ہیں اور تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی تبدیلی سرکار کو اس نہج پر پہنچانے والے اور لمبی لمبی ہانکنے والے وزیر، مشیر ہیں یا دہائیوں سے سسکتی بلکتی عوام نے ایک اناڑی کپتان اور اس کے مانگے تانگے ناتجربہ کار کھلاڑی ہیں۔

(جاری ہے)


لیکن اس بات سے بھی منحرف نہیں ہوا جاسکتا کہ جس ملک کے وزیراعظم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی تنخواہ کم پڑتی ہو وہ اپنی قوم کو کیا دے سکے گا اور اس سے کیا امیدیں وابسطہ کی جاسکتی ہیں بس اسی بات سے ہی دل کو تسلی ہو سکتی ہے کہ سکون صرف قبر میں ہی ملتا ہے لیکن ہمارے کپتان اس کی نفی بھی کرتے پائے جاتے ہیں کہ سکون تو قبر میں بھی نہیں ملتا۔

جس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی اپنی حالت بدلنا چاہی ہے اس نے بھوک افلاس، مشکلات، آفتوں اور اپنی قسمت کو مات دے کر اپنا مقام حاصل کیا ہے اور دنیا پر۔حکمرانی کی ہے لیکن ایک پاکستانی قوم ہے جس نے قربانیاں بھی دیں، بھوک افلاس دیکھی، آفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا حتی کہ جانوں کے نذرانے بھی دئیے جس سے ہم نے پاکستان تو حاصل کر لیا لیکن اس قوم کی شروع دن سے ہی ایک کمزوری رہی ہے اور وہ ہے بے ایمانی جو اس قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بنے ہوئے ہے ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کرلی لیکن اپنے ضمیر کو رشوت خوری اور اقرباءپروری سے نجات نہیں دلائی جس کے نتائج بحثیت قوم ہم بھگت رہے ہیں تو اس تناظر میں حالیہ آٹے کے بحران کو دیکھا جائے تو یہ واضع ہو جاتا ہے کہ جہاں اس بحران کے پیدا ہونے میں کپتان کے وسیم اکرم پلس بزدار صاحب کی نااہلی اور کمزور حکمت عملی ہے وہیں کپتان کے چند قریبی رفقاء کے مالی فوائد بھی ہیں اور حکومتی نمائندگان اور بزدار صاحب برملا کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں آٹے کے بحران جیسی کوئی چیز نہیں اور محکمہ فوڈ ارتھاٹی کے مطابق گندم کے ہزاروں ٹن ذخائر موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آٹے کے حصول کے لیے شہریوں کا دربدر پھرنا اور آٹے کے سیل پوائنٹس پر لمبی قطاریں کیا ہوا میں بن رہی ہیں
پاکستان ایک ذرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کا زیادہ حصہ ذراعت سے ہی آتا ہے اور پنجاب چونکہ سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں وافر مقدار میں گندم کاشت کی جاتی ہے اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد دوسرے ممالک میں درآمد بھی کی جاتی ہے پھر ایسے تناظر میں آٹے کے بحران پر سنجیدہ حلقے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، اطلاعات کے مطابق بحران سے پہلے گندم درآمد کر کے اور بحران کے بعد گندم برآمد کر کے جیبیں بھرنے والے تبدیلی سرکار کے چند اہم افراد ہیں جو بحران کے بعد بحران پیدا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

تبدیلی کی خواہاں قوم تبدیلی کی پہلی جھلک پر ہی سرنڈر کر بیٹھی ہے اور نئے پاکستان کے متلاشی پرانے پاکستان لوٹ جانے کا ارادہ باندھے بیٹھے ہیں غریب اور مزدور طبقہ یہ کہتے پھر رہا ہے کہ "چھین رہا ہے کپتان روٹی، کپڑا اور مکان" جن تبدیلی کے خواہاں افراد نے نئے پاکستان میں انٹری ڈالی تھی وہ پرانے پاکستان کا ٹکٹ کٹوائے بیٹھے ہیں اور یوٹرن لے کر اپنے لیڈر کے موقف کو فوقیت بخش رہے ہیں اور غریب عوام جوتے تو کھا ہی رہی ہے ساتھ میں ترلے بھی ڈال رہی ہے کہ عمران خان تینوں اللہ دا واستہ سانوان پرانا پاکستان واپس کر دے۔

آٹے کا بحران تو پرانا ہونے کو ہے اور اب آٹے کے ناملنے کاشور بھی کم سنائی دیتا ہے لیکن بقول وزیراعظم پاکستان میرے ہم وطنو آپ نے گھبرانا نہیں آٹے کے بعد چینی کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے اور اسی طرح ہم ایک کے بعد ایک مصیبت کا سامنا کرتے رہے گے جب تک ہم اس کھوکھلی تبدیلی اور اس گلے سڑے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوں گے کیونکہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہ بدلے
بحیثیت شخص ہم میں یہ بھی خامی پائی جاتی ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے بھی دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں اور ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ کوئی مسیحا آجائے جو ہمیں ہماری مشکلات سے چھٹکارہ دلائے۔

چائینیز لیڈر مائو پالو نے کہا تھا کہ ہمیشہ اپنی قوتوں پر انحصار کرو اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ تو آخر ہم کب تک دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا کیونکہ جو قومیں اپنی حالت خود نہیں بدلنا چاہتی خدا بھی ان کی حالت نہیں بدلتا اور جیسی قومیں ہوں ان پہ ویسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے ہیں سو جو ہم کاٹ رہے ہیں وہ ہمارے کرموں کا ہی پھل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :