عفوودرگزر اٹھ گیا کیا ؟

جمعرات 21 جنوری 2021

Hassaan Shah

حسان شاہ

یہ انسانوں کی بستی ہے اور اِس بستی کا قانون ہے کہ اگرکسی کو کوئ بات سمجھانی ہوتو پہلے اُس کی کوئ نظیر پیش کرنا لازمی ہوتا ہے ورنہ اُس بات کا اثر مقدم نہیں رہتا بغیر کسی دلیل کہ قول میں تضاد شامل ہو جاتا ہے، اسی لئے شاید ہم انسان کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنی سابقہ زندگی کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ اگلا قدم اُٹھاتے ہیں تاکہ معاشرہ یہ نہ کہہ دے کہ بھلا ایسا کبھی تاریخ میں ہوا، کیا کسی نے ایسا کیا جو تُم نے یکدم کردیا۔

یہ سارے سوالات ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان کو عجیب سی کشمکش میں مبتلا کر دیتے ہیں جس سے وہ انسان شاید کبھی دوبارہ کوئ نیکی کا عمل نہ کر پاۓ کیونکہ معاشرہ اجازت ہی نہیں دیتا۔ دین ہو یا دُنیا سب کے اپنے اپنے تصورات ہیں ہر کوئ ایک دوسرے پر بس اپنی راۓ تھوپنے پر تُلا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تحریر بھی اُس مثبت پہلو کو اجاگر کرتی ہے جس کو ہم مسلمانوں نے پسِ پردہ ڈال دیا صرف اِس بنیاد پر کہ اب اعتبار کا دور نہیں رہا یہاں ہر دوسرا شخص عیار ہے، مفاد پرست ہے۔

اِس طرح کہ خودساختہ تصورات نے ہم مسلمانوں سے ہماری ایک عظیم خوبی چھین لی جو ہماری وجہ شہرت اور کامیابی تھی وہ اِس دورِ جدید نے ہم سے دور کر دی۔
آخر وہ خوبی ہے کیا جو ہم بھلا بیٹھے، وہ خوبی ہے عفوودرگزر۔ جی ہاں عفوودرگزر جو ہمارے نبی کریمؐ کی شان تھی اور اُن کے بعد اُن کے صحابہؓ کا شعار تھی۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب ریاستِ مدینہ میں کوئ شخص بھوکا نہ سوتا تھا انصاف کا بول بالا تھا۔

دو نوجوان شہنشاہِ عدل حضرت عمر ؓکی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کھڑے ہوتے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں
’’اے امیر المومنین!یہ ہے وہ شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا۔‘‘
حضرت عمرؓ اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ واقعی تو نے ان نوجوانوں کے باپ کو قتل کیا؟اس شخص نے جواب دیا:’’امیر المو منینؓ ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوا۔

میں نے منع کیا، وہ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے ماراجو سیدھا اس کے سر میں لگا۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘‘حضرت عمرؓ نے فر مایا، پھر تو قصاص دینا پڑے گا اور اس کی سزا تو موت ہے۔اس نے عرض کیا:’’اے امیر المومنینؓ اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں،مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوںکے پاس جا نے دیجئے تاکہ میں انھیں بتا آئوں، میں قتل کر دیا جا ئوں گا۔

ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں، میں پھر واپس آجائوں گا۔‘‘
سیدنا عمرؓ ارشاد فر ماتے ہیں کہ کون ہے جو تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا جاکے واپس بھی آئے گا
مجمع پر خاموشی چھا جاتی ہے،کوئی بھی تو ایسا نہیں جو اس کے نام تک سے واقف ہو، قبیلے، خیمے اور گھر کے بارے میں جاننا تو بہت دور کی با ت ہے۔اس کی کون ضمانت دے؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار،زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کامعاملہ ہے؟
نہیں، ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اُڑادیا جانا ہے۔

پھر ایسا کوئی بھی تو نہیں جو اللہ کی شریعت کی تنقید کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کرنے کھڑا ہو جائے؟ محفل میں موجود اصحاب ؓ پر خا موشی چھا گئی۔ صورتِ حال سے خود عمرؓ بھی متاثرہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب ہی کو حیرت میں ڈال کے رکھ دیا۔کیا واقعی اسے قتل کر کے اس کے بچوں کو بھوکامر نے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانت کے واپس جانے دیا جائے؟
حضرت عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔

پھر سر اٹھا کے التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے اور فرماتے ہیں :’’معاف کر دو اس شخص کو۔‘‘ ’’نہیں امیرالمومنین ؓ! جس نے ہمارے باپ کو قتل کیاہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔‘‘ نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ عمرؓ پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں، ’’اے لوگو!تم میں ہے کوئی جو اس کی ضمانت دے سکے؟‘‘
حضرت ابو غفاریؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہوتے اور فر ماتے ہیں ’’میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں۔

‘‘
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں :’’ابوذرؓ اس نے قتل کیا ہے۔‘‘ ’’چاہے قتل ہی کیا ہو۔‘‘ ابوذرؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔عمرؓ فر ماتے ہیں: ’’ ابو ذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کے نہ آیاتو مجھے تیری جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘ ابوذرؓ اپنے ٖفیصلے پر ڈٹے ہوئے فرماتے ہیں ’’اے امیر المومنینؓ!پھر اللہ مالک ہے۔‘‘
یوں سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کے وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے۔

تین راتوں کے بعد نماز عصر کے وقت شہر میں الصلاۃ الجامعہ کی منادی گونجتی ہے۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کے لئے بے چین ہیں۔ مجمع اللہ کی شریعت کو نافذ ہوتا دیکھنے جمع ہے۔ ابوذر ؓ بھی تشریف لاتے اور عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
’’کدھر ہے وہ آدمی؟‘‘ عمر ؓ ابوذرؓ سے سوال کرتے ہیں۔ ’’مجھے کچھ معلوم نہیں اے امیر المو منینؓ !‘‘ ابوذرؓ مختصر جواب دیتے اور آسمان کی جانب دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں جہاں سورج ڈوبنے کی جلدی میںہے۔

محفل میں ہُو کا عالم ہے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتاکہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔با لآخر مغرب سے کچھ لمحات قبل وہ شخص ہانپتا کانپتا آجاتا ہے۔ عمرؓ اس سے مخاطب ہو کے فر ماتے ہیں:’’اے شخص!اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، یہاں کو ئی نہ تو تیرا گھر جانتا تھااور نہ ہی کوئی تیرا ٹھکانا۔‘‘
آدمی نے جواب دیا:’’امیر المو منینؓ!اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں، اس ذات کی ہے جو سب ظاہر وپوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے۔

دیکھ لیجئے، میں آگیا ہوں،اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کے ،جہاں نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان،میں قتل کیے جانے کے لئے حاضر ہوں۔مجھے بس یہ ڈر تھاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے ابو ذر غفا ری ؓکی طرف رخ کر کے پوچھا:’’آپؓ نے کس بنا پر اس شخص کی ضمانت دی تھی؟‘‘ ابو ذرؓ نے فر مایا:’’اے عمرؓ! مجھے اس بات کا ڈر تھاکہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے، اب لوگوں میں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

‘‘
عمرؓ ایک لمحے کے لئے رکے اور پھر نوجوانوں سے پوچھاکہ اب کیا کہتے ہو؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا:’’اے امیر المومنینؓ!ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں،ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو و در گذر ہی اٹھ گیا۔‘‘
قارئین! یہ واقعہ سنے کئی دن گزر چکے۔ میں اس سوال کے جواب کا متلاشی ہوں کہ ہم بھی تو اسی نبی مہربانﷺ کے امتی ہو نے کے دعویدار ہیں کہ جس میں عمرؓ، ابوذرؓ اور ان جیسے ہزاروں خوش بخت لوگ شامل تھے۔

لیکن ان میں اور ہم میں آخر اتنا فرق کیوں پیدا ہو گیا ؟
وہ اپنے ہر فیصلے سے پہلے اس بات کا لحاظ رکھا کرتے تھے کہ اس پر اللہ اور لوگوں کا ردعمل کیا ہو گا ؟
یہی وجہ ہے کہ آج ہندو،سکھ اور یہودی سمیت سبھی اقوام عمرؓ کے عدل کو مثا ل کے طور پر پیش کرتی ہیں۔لیکن ہم ہیں کہ اپنے ہی بے گنا ہ بھائیوں کو سر عام موت کے گھاٹ اتارتے دیکھ رہے ہیں۔

عدالتیں سزا کے ان مطالبوں پر مبنی مقدمات سے بھری ہیں جو برسوں لوگوں کو اذیت اور عذاب سے دوچار رکھتے ہیں۔ وہاں موجود لوگوں کی زندگیاں اور دل نفرت سے بھرے رہتے ہیں۔ یہ کیسا نظام عدل ہے جس میں اور جس کے لیے کام کرنے والوں کے دل ہی نہیں ہیں؟
ہمارے لوگوں کو ضرور سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ اسلام اور اسلامی شخصیات کی زندگی کی کہکشاں جو ہمدردی، غم گساری، اور معافی سے سجی ہے ہمارے ہاں بدلے پر تُل جانے والے فریق سے معاملات، سلیقے اور درگزر کی بنیاد پر سلجھانے اور نمٹانے پر آمادہ کرنے کا نہ کوئی نظام باقی رہاہے نہ خواہش۔

جج اور عدالتیں صرف بے زبان قانون اور کتابوں کا نام نہیں، ان کابھی تو دل ہوتا ہے اور ان کے اندر بھی روح ہونی چاہیے ۔یہ ہے وہ خوبی جو اب ہم میں باقی نہ رہی بلکل اسی طرح نہ جانے کتنی ایسی خوبیاں تھیں جو ہم نے اِس معاشرے کی بات مانتے ہوۓ بھلا دیں۔ یہ میں نہیں کہتا بڑے بڑے اولین بزرگ کہتے تھے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ یہ تحریر شائد اُس مسلمان کی ہی جس نے ایسی خوبیوں کو اپنایا ہوا تھا میں نے تو صرف واقعات کو پڑھ پر اُن احساسات کو الفاظوں کا لبادہ پہنایا ہے کہ شاید کہ اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :