فلاحی ریاست کی جانب ایک اور قدم

جمعہ 2 اپریل 2021

Hassaan Shah

حسان شاہ

وزیراعظم عمران خان صاحب کو اکثر کہتے سناہے کہ میرا مقصد پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا ہے جس کے لئے میں اور میری حکومت خوب جدوجہد کر رہے ہیں ہمارے ادارے دن رات کام میں مصروف عمل ہیں ۔ بیانیہ سننے میں تو بہت خوب ہے اور اس کا عکس نظر بھی آہا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی ترقی کے منازل طے کرہا ہے ہر ادارہ اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے، ہمارا روپیہ دن بدن مستحکم ہو رہا ہے ، ہماری برآمدات میں قدرے اضافہ ہو رہا ہے یہ سب اقدامات خوش آئیند ہیں۔

مگر دوسری جانب تبدیلی کا نعرہ لگانے والی اور پاکستان کو مدینے کی ریاست کی دعویدار حکومت نے حالیہ دنوں میں ہی ہمسایہ ملک چین کی ایک شراب بنانے والی کمپنی کو اجازت نامہ جاری کردیا ہے، اب یہ ہوئی کوسٹل نامی چینی کمپنی بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں اپنی شراب بنانے گی ۔

(جاری ہے)

پلانٹ تو سال 2017ہی تعمیر کردیا گیا تھا مگر یس کمپنی کو لائیسنس ہی اب ملا شراب بنانے کا ، خود حکومت کے ادارے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب اس چینی کمپنی نے30اپریل 2020 کو سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)میں خود کو رجسٹرڈ کروایا ہے اور اب اس کمپنی نے گزشتہ ہفتے سے اپنی پیداوار کا آغاز کردیا ہے۔

یہ کمپنی پاکستان میں جاری میگا پروجیکٹ سی پیک میں موجود چینی باشندوں کو اپنی شراب فراہم کرے گی۔پاکستان بھر میں جہاں جہاں چین کے باشندے سی پیک پر کام کررہے ہیں یہ شراب ان سب کو فراہم کی جائے گی کیونکہ یہ چائینز باشندوں کی مانگ ہے یہ کہنا تھا ایکسایز ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل ریاست مدینہ میں ہونا چاہیے ؟ کیا اسلامی ریاستوں میں ایسی حرام چیزوں کا قیام جائز ہے؟ اور کیا ریاست مدینہ ایسی تھی؟ نہیں نا ۔

۔۔۔۔
تو پھر اجازت کیوں دی گئی اس کمپنی کو لائسنس بجائے منسوخ کے جاری کیوں کیا گیا ، یہ حکومت کس کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے؟ اگر چین ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرہا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جو وہ اپنے ملک میں کرتے پھرتے ہیں وہ یہاں بھی کریں۔ اس معاملے پر خاموشی کیوں اختیار کی جارہی ہے کیا ہم اتنا چینی قوم کے نیچے دبے ہوئے ہیں جو انہیں منع بھی نہیں کر سکتے۔

باقی تمام سیاسی جماعتیں کیوں اب تک خاموش ہیں کہاں گئیں پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں بولتے کیوں نہیں اس اقدام پر منہ پر تالے پڑ گئے یا کوئی اور خفیہ مقاصدہیں ، کیا یہ مذہنی جماعتیں وہ منظر بھول گئیں ہیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سن 1977میں لاہور میں ایک ریلی میں خطاب کے دوران کہا تھا کی ہاں میں شراب پیتا ہوں لیکن عوام کیا خون نہیں پیتا اس وقت تو ان سیاسی جماعتوں نے آسمان سر پر ٹھا لیا تھا پورے کراچی شہر میں واویلا کیا تھا شراب کی دکانیں میں گھس کر توڑپھوڑ کی تھی سڑکیں بند کی تب تو بڑا شور کیا تھا کیونکہ اس وقت کو پوشیدہ مقصد نہیں تھا تو اب کیوں نہیں ، کیا سیاست بچانی ہے یا کرسی کے چھن جا نے کا ڈر لاحق ہے؟سن 1977کو جب ضیاالحق نے حکومت کا تختہ الٹایا تو بھٹو سمیت ان مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور لیڈران کو بھی گرفتار کیا اور تب دعوت دی جماعت اسلامی کو کہ وہ آئے اور میری مدد کرے پاکستان کو ایک حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا، پھر تو سزا کا بھی تعین کیا گیا ۔

آج پاکستان پھر اسی جگہ کھڑا ہے شراب بن رہی ہے اور اس کی ترسیل بھی ہو رہی ہے بس کمی ہے تو صرف ان سب کے خلاف آواز بلند کرنے کی، انہیں سیاسی جماعتوں کے عمل دخل کی مگر ہم سب جانتے ہیں اب یہ ممکن نہیں جیسی ریاست یہ بنانے کے یہ متمنی ہیں وہاں ایسی چیزوں کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو اسلام اور عین شرعی اصولوں کے منافی ہو؟ جہاں شراب فروشی عام ہواور خود حکومت اسکی پشت پناہی کرے۔

بجائے اس معاملے کو جڑ سے اکھاڑنے کے خود حکومت اسے قانون کے دائرے میں لا رہی ہے۔ سب کومعلوم ہے کہ اس شراب سے کون کون استفادہ حاصل کرے گا ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اب چینی اور پاکستانی جھوم جھوم کر شراب کے نشے میں دھت ہوکر پاکستان کو ترقی کے منازل طے کروائیں۔ جو جو فلاحی کام اس حکومت نے کیے وہ بلاشبہ تعریف کے قابل ہیں جن میں غریب کے لئے پناہ گاہیں سرفہرست ہیں مگر اس اقدام نے حکومت کامدینے جیسی فلاحی ریاست کا نعرہ کھوکھلا لردیا ہے اس حکومت کا اپنے ہی بنانیہ میں تضاد شامل ہوگیا ہے۔یہ ہے حکومت کا فلاحی ریاست کی جانب ایک اور قدم ۔ اب اگر ایسے ہی اقدامات کرتے رہے تو بن گئی یہ ریاست مدینہ اور ہوگیا پاکستان ترقی یافتہ۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :