شرح طلاق میں اضافہ و حل؟

پیر 14 اکتوبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

کسی بھی معاشرہ کی بنیادی اکائ اس معاشرے کا خاندانی نظام ہوا کرتا ہے۔اگر خاندانی نظام مظبوط ہوگا تو کسی بھی ملک کا معاشرہ بھی کامیاب و مظبوط ہوگا۔ خالق کائنات نے خاندان کے نظام کو مرتب کرتے ہوے ایک تعلق رشتہ بنایا جسے رشتہ ازواج کہا جاتا ہے۔ اسی تعلق پر کوئی بھی معاشرہ قائم ہے۔وقت کے بدلتے رجحان نے اس تعلق کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کردیں ہیں جو کہ ماہر عمرانیات (Sociologist) کے مطابق انتہائی خطرناک ہے۔


لفظ طلاق کے معنی کی طرف اگر جایا جاۓ تو اس کا مطلب ہے "ترک کر دینا یا چھوڑ دینا"۔ جب معاشرے کی بنیادی اکای خاندان کے افراد (میاں و بیوی) آپس میں تعلق کو ختم کرتے ہیں تو اس کو ہم طلاق کہتے ہیں۔ طلاق گویا اسلام نے نہایت نا پسند قرار دیا مگر معاشرہ میں اس کا روجحان بڑھتا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں لفظ اکائی سے مراد یوں ہی ہے جیسے ایک بلڈنگ کو بنانے کے لیے لاکھوں اینٹیں درکار ہوتی ہیں تب جا کر کوئی بلڈنگ تعمیر ہوتی ہے تو اس بلڈنگ کی اکائی وہ ایک اینٹ تھی، اسی طرح ہمارے معاشرے کی بھی ایک اکائی ہے جی کہ خاندان و میاں بیوی ہیں۔

اگر اکائی ہی کمزور اور کھوکھکی ہوگی تو معاشرہ بھی کمزور تر ہوگا۔
اگر صرف لاہور شہر کی بات کی جاۓ تو فروری 2005 سے جنوری 2008 تک کم و بیش 75 ہزار طلاق کی رپورٹس رجسٹر هوئیں۔ اسی طرح 2008 سے 2011 تک کم و بیش ایک لاکھ طلاق کے معاملات رجسٹر ہوسکے۔ الغرض صرف 2010 میں 40 ہزار طلاق کے معاملات رجسٹر ہوے۔ ایک دہائی کے درمیان صرف لاہور شہر میں کم و بیش 2.5 لاکھ طلاق کے معاملات دیکھنے میں آے جوکہ لمحہ فکریہ ہیں۔


اب شرح طلاق کی وجوہات کی جانب جایا تو مختصر سی کچھ یوں ہیں۔ سب سے پہلی و بنیادی وجہ عدم برداشت ہے۔ خواہ وہ شوہر کی جانب سے ہویا بیوی کی جانب سے ہو۔آج کل کے اس افرا تفری کے زمانے میں برداشت و صبر کا پیمانہ ختم ہوگیا۔ مسائل و ذہنی دباؤ بڑھتی جارہی ہے جس سے افراد میں صبر و امن بلقل ختم ہوتا جارہا ہے۔ اسطرح ایک اور بنیادی وجہ "بے جوڑ رشتے" ہیں جس میں والدین کا اہم کردار ہے۔

معاشرہ میں اسلامی اقدار و علم کی کمی کی وجہ سے والدین، اولاد کی پسند نا پسند کا خیال کرنے اور اولاد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اسی طرح والدین اپنی مرضی کو اولاد پر خاص طور پر لڑکیوں پر مسلط کرتے ہیں جو بعد ازاں تعلقات میں خرابی کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک اور بنیادی وجہ تعلیم کی کمی پاکستان کی اکثریت ان پڑھ اور لاشعور ہے جس وجہ سے بھی طلاق کے معاملات بڑھ رہے ہیں۔


اسی طرح ایک اور سبب جو آج کل مقبول ہوتا جارہا ہے " جوائنٹ فیملی سسٹم" ہے جس میں لڑایاں و فسادات برھتے جارہے ہیں۔ کچھ معاملات میں ہم جانتے ہیں کہ گھر کی بہو و ساس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں جس سے فسادات بنتے ہیں جو خاندانی نظام کو تباہی کی جانب لے جاتا ہے، گویا ان جوائنٹ فیملی سسٹم بھی شرح طلاق میں اضافہ کی وجہ ہے۔
 الغرض اور بھی وجوہات ہیں جن میں گلوبلایزشن (Globalization) بھی ایک جدید وجہ ہے۔

موبائل فون نے جہاں ملکوں کو آپس میں ملا دیا وہیں گھروں کے اندرونی رابطے کو کاٹ کررکھ دیا۔ والدین بھی گلوبلائزیشن کی وجہ سے اولاد کو وقت دینے سے قاصر ہیں۔ جدت نے خاندانی نظام کو بہت برے طریقے سے تباہ کیا ہے۔
پہلے جو گاؤں کی خاتون صرف گھر کے کام کاج اور بچوں کو سنبھالتی تھی اور فصلوں میں بھی گھر والوں کا ہاتھ بٹتی تھی اب اسی کے گاؤں میں ایک فیکٹری لگ گئی ہے جوکہ گلوبلائزیشن کا اثر ہے۔

اب وہی عورت صبح ناشتے بھی بناتی ہے، آٹھ گھنٹے فیکٹری میں بھی کام کرتی ہے، گھر کی کام کاج و فصلوں میں بھی اسی کو کام کرنا پڑھ رہا ہے۔ اتنے کام کاج کی وجہ سے نا اولاد کو وہ وقت دے پاتے ہیں اور نا ہی وحدت باقی رہ پاتی ہے۔ تو گویا گلوبلائزیشن کا بھی خاندانی نظام پر ایک گہرا اثر ہے جس نے جہاں آسانیاں دیں، وہیں ذہنی سکون و برداشت کا مادہ ختم کردیا۔


اس بڑھتے ہوے مسلہ کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اور معاشرتی بنیادی اکائی کو محفوظ و مظبوط بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔اس وقت بین الاقوامی سطح پر خاندانی نظام کو بچانے کے لیے ریسرچ ورک و پالیسیز بنائی جارہی ہیں۔اگر خاندانی نظام ہی مظبوط نا ہوگا تو معاشرہ و ملک کیسے وحدت و یکسوئی رکھے گا؟ اس وقت یہ مسلہ نہایت اہم ہے جو کہ ہر ہر خاندان و طبقہ میں پھیل چکا ہے۔

اس کے لیے حکومت وقت کو شعبہ عمرانیات (Sociology) کے ماہرین سے سے رابطہ کرنا چاہئیے اور جامع حکمت عملی کے ساتھ نظام خاندان کو محفوظ بنانے کی پالیسی وضع کرنی ہوگی ماہرین عمرانیات (Sociology) کے مطابق اگر شرح طلاق میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تو 2050 میں خطرہ ہے کہ پاکستان میں خاندانی نظام ختم یا نا ہونے کے برابر ہوجاۓ گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد خواہ وہ استاد ہے یا امام مسجد یا والدین۔ وہ حکومت وقت ہے یا میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ عدم برداشت، تعصب کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے نصاب تعلیم میں امن و محبت کا نصاب شامل کرنا ہوگا تاکہ مملکت خداداد پاکستان کا معاشرہ مظبوط و کامیاب معاشرہ بنے۔ کسی بھی ملک کا مضبوط معاشرہ اس ملک کو مظبوط کرتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :