باپ سراں دے تاج

اتوار 21 جون 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

آج عالمی سطح پر Fathers Day یعنی والد کے دن کے طور پر منآیا جارہا ہے۔ یوں تو کوئی دن ماں باپ کے بغیر نہیں، مگر یقینا" ایک خاص دن کو Fathers Day کے طور پر رکھنے کا مقصد باپ کے ساتھ اس محبت و ادب کو بڑھانا ہے۔ یہ وہی باپ ہوتا ہے جو بیوی بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں صبح نکلتا ہے تو سخت گرمی کی شام گھر واپس آتا ہے۔ یہ وہی باپ ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنے باس (استاد) سے ہزار باتیں سنتا ہے۔

اولاد اس باپ کے رزق حلال کے لیے بہاے گئے ایک قطرے کا بھی حق ادا نہیں کرسکتی۔ کہیں یہی باپ اولاد کے لیے رزق کی تلاش میں سال ہا سال اپنا شہر حتی کہ ملک تک چھوڑ کر خود مشکلات برداشت کرتا ہے تاکہ اسکے گھر والے سکون سے رہیں۔
یہ ایک باپ کی ہی اولاد سے محبت ہوتی ہے کہ ہمیشہ باپ چاہتا ہے کہ اسکی اولاد اس سے زیادہ ترقی حاصل کرے۔

(جاری ہے)

ماں کی اولاد کے لیے محبت ظاہر ہوتی ہے مگر ایک باپ کی محبت بھی ماں سے کم نہیں ہوا کرتی، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک باپ اولاد کے لیے محبت کو اس طرح ظاہر نہیں کر پاتا جیسے اسکے دل میں ہوا کرتی ہے۔

آج کے روز اس چیز کے عہد کرنے کا ہے کہ ھم ہمیشہ اپنے والدین کے وفادار، عزت و احترام کرنے والے ہوں گے۔
یوں تو میرے والد گرامی فقط میرے والد ہی نہیں بلکہ ایک بہترین دوست، استاد، Motivator, لیڈر اور ایک اچھے رازدان بھی ہیں۔ آپ کی بہت سے نصیحتیں ہیں جو مجھے آج تک یاد ہیں مگر آج فقط ایک ہی نصیحت لکھنا مناسب ہوگا کہ آپ کے نے مجھ سے ایک دن پوچھا تھا کہ "تم اتنا اور یونیورسٹی لیول میں کیوں پڑھ رہے ہو" ظاہر ہے جو مادی دنیا میں دیکھا اور سیکھا تھا وہی جواب دینا تھا جواب دیا "پیسہ و عزت کمانے کے کی لیے" تب انہوں نے کہا "گویا تمہارا زندگی کا مقصد فقط پیسہ کمانا اور بلندی ہے، یونہی رہا تو کل پیسے کی خاطر تم چوری چکاری بھی کرو گے۔

میری نصیحت ہے کہ ہمیشہ رزق حلال کمانا چاہے کسی کے جوتے ہی کیوں نا مرمت کرنے پڑھ جائیں" انکی اسی نصیحت نے میرا زندگی کا مقصد یکسر بدل کر رکھ دیا۔آج میں علم کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال کررہا ہوں۔ آج کے روز اگر اپنے بڑے ابو (دادا جان) محترم صوبیدار (ر) خالد محمود بھٹی (مرحوم) کا ذکر نا کروں تو یہ سراسر زیادتی ہوگی۔ میری زندگی میں علم کی رغبت و دنیا کی سوج بوج میں انکا اہم کردار ہے۔

کالج کی سیکنڈ ایئر کی فیس سے لے کر یونیورسٹی فیسز میں انکا اہم کردار رہا۔ جس لیول کا پیار، محبت، شفقت، دوستی اور میرے مستقبل کی فکر ان میں تھی وہ شائد ہی دنیا کے کسی اور فرد میں دیکھی ہو۔ میرے والد گرامی کے ساتھ بھی میرا تعلق محبت، دوستی اور انکو بھی میرے مستقبل کی فکر کم تر نہیں رہتی مگر شائد ہی کوئی دن گزرا ہو جب مجھے بڑے ابو جی (دادا جان) کی یاد نا آئ ہو۔

آج کے دن کا یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ اپنے ابا و اجداد کی قدر کریں۔ اپنے بڑوں ماں باپ کو وقت دیں انکی سنیں، انکو ہی اپنے دل کی سنائیں۔ انکے علاوہ آپ کا کوئی خیر خواہ نا ہے نا ہو سکتا ہے . والدین سے ہی گھر اور زندگی کی بہاریں ہیں۔ یوں ہی حضرت میاں محمد بخش رح نے نہیں فرمایا تھا کہ "باپ سراں دے تاج محمد۔۔ . ماواں ٹھنڈیاں چھاواں"
آج ان سے پوچھیں جن کے ماں باپ یا کوئی ایک نہیں ہے۔ ان سے پوچھیں انکا گھر کیسا ہے؟ انکے گھر کی رونقیں کیسی ہیں؟ اللہ‎ کے حضور دعاگو ہوں کہ ہمارے والدین کو صحت، سلامتی و خوشحالی والی زندگی عطا فرماۓ اور انکا سایہ ھم پر قائم و دائم رہے۔آمین
جن کے والدین یا کوئی ایک بھی جسکا انتقال ہو چکا ہوانکے درجات بلندی کے لیے بھی دعاگو ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :