میرے پیارے سسر جان

منگل 26 جنوری 2021

Hassan Naseer Sandhu

حسن نصیر سندھو

آج میرے سامنے وہ سفید لباس میں لیٹے پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔ نورانیت تو پہلے بھی ان کے چہرے پر تھی پر آج روپ ہی کچھ اور  تھا۔ اور ان کے اس آخری سفر کی کامیابی کا یقین کامل مجھ سمیت ہر کسی کو تھا۔ لیکن اس کامیابی کے ساتھ رحمت خداوندی پر یقین اس یقین کامل سے بھی ذیادہ ہے۔
 حدیث قدسی ہے، ایک شخص کے تین والد ہیں۔

ایک جس کے نطفے سے پیدا ہوا، دوسرا جس نے سکھایا، تیسرا جس نے اپنے جگر کا گوشہ یعنی اپنی بیٹی کو نکاح میں اپکو دیا۔  چوہدری بشیر احمد میرے سسر بھی تھے۔ اور مجھے اپنے باپ کی طرح عزیز جان بھی تھے۔ کمال کی محبت و شفقت ان سے ہر لمحہ میسر رہی۔ ہر وقت مسکراتا اور دمکتا چہرہ، دل موہ لینے والی مسکراہٹ اور علم کے موتیوں سے بھری گفتگو ہر اگلے شخص کو آپ کے سحر میں مبتلا کر دیتی تھی۔

(جاری ہے)


آپ 82 سال کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نظر نہیں آتے تھے۔ گھر میں دو دو گاڑیاں اور ڈرائیور ہونے کے باوجود لاہور بار آنے اور جانے کے لیے لوکل ٹرانسپورٹ کو اس عمر میں بھی ترجیح دیتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہونے کے بعد وکالت کے شعبے کو خود کو تازہ اور ہشاش بشاش رکھنے کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ لاہور اور شیخوپورہ کے سینئر معزز ترین وکیلوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔

شائید یہی وجہ تھی کہ انکی وفات پر دونوں بارز کے باقی تمام وکیلوں نے  ایک دن عدالتوں میں پیش نہ ہو کے اپنا اپنا غم غلط کیا۔
اس عمر میں بھی آپ جس سے ہاتھ ملاتے تو باقاعدہ مصافحہ کرتے اور باقاعدہ مصافحہ میں گرمجوشی سے اپنا ہاتھ اور بازو ہلا کر ہر دوسرے شخص کو محسوس کراتے کے اس ملاقات سے وہ انتہائی خوشی ہیں۔ اور اگلے کو گرم جوشی کا جو احساس بخشتے وہ اس کے لیے یادگار بن جاتا۔

کیا چھوٹا کیا بڑا سب ان کی گفتگو کے دلدارہ نظر آتے۔ جونیئر وکلاز نے بھی ان کی شخصیت سے بہت کچھ سیکھا تو خاندان اور ملنے جلنے والوں سے کوئی بھی شکوہ اور شکایت ان کے متعلق سننے کو نہیں ملی۔ بس تعریفیں اور ان کی سحر انگیز شخصیت کے قصے ہی قصے سننے کو ملے۔
 آپ ایک ولی کامل کے مرید تھے اور اس ولی کامل نے ایک دفعہ آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہونے والا ہے۔

اس وقت کئی پٹھان مرید بھی ساتھ بیٹھے تھے۔ سبھی نے مبارکباد دینی شروع کردی اور آپ کے آنسو تھمنے کو نہ آئیں۔  گھر آئے، بیٹیاں چھوٹی تھیں، جو ساتھ سوتی تھیں اور بستر پر پیشاب بھی کر دیتی تھیں۔ پر مارے شوق و محبت کے، کہ پیارے نبی کی زیارت ہونی ہے، روز صاف ستھرے کپڑے اور خوشبو لگا کر سوتے۔  پر ساتھ پریشان ہوتے کہ میری پاکی اور ناپاکی میں کیا دیدار شریف ہو پائےگا۔

پر کیا نصیب فرمائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی فیضیاب ہوئے۔ شاید یہی وجہ تھی، کہ آپ اس عمر میں بھی اور بستر مرگ پر بھی تسبیح کرنا نہ بھولے۔
میرے ساتھ ان کا ایک خاص تعلق تھا۔ میں محسوس کرتا وہ مجھ سے گفتگو کرنے کے لیے بھی اتنا ہی بے تاب ہوتے جتنا میں ان کی گفتگو سننے کے لیے۔ ہر ملاقات میں اپنی کتب خانے میں سے نادر نسخے پڑھنے کے لیئے مجھے ضرور دیتے اور میرے ماتھے پر بوسہ کرنا کبھی نہ بھولے۔

آپ نہ رہے پر آپ کے ہونٹوں کے لمس کا احساس میرے ماتھے پر ہمیشہ رہے گا۔ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کے ساتھ ان کے دنیا کے معاملات آسان سے آسان تر بنائیں آمین۔
دل روتا ہے اور کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے
آنکھ سے آنسو تھمتے نہیں اور حلق خشک ہونے کو آتاہے
اے جانے والے، تیرے سفر کی منزلیں ہوں آسان
رہ جانے والوں کو یہ دنیا اب امتحان گاہ نظر آتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :