
ہاں میں ایک استاد ہوں
منگل 6 اکتوبر 2020

حسن نصیر سندھو
کچھ ناگواری کے ساتھ ناک پر رومال رکھ کرمیں نے دروازے کی کنڈی کو پکڑ کر کھٹ کھٹا دیا کیونکہ وہاں ڈوربیل نامی کوئی چیزنہیں تھی۔
(جاری ہے)
کچھ دیر میں ایک سلجھی ہوئی عمر رسیدہ خاتوں جن کا چہرہ تمانت سے چمک رہا تھا دروازہ پر آئیں۔
سلام دعا کے بعد مجھ سے آنے کا مقصد پوچھا میں نے عرض کی کہ استاد یعقوب صاحب سے ملنے آیا ہوں تو انہوں نے ڈرائنگ روم نما کمرے کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کو کہا اوربتایا کہ ماسٹر جی پنشن نکلوانے گئےہیں ، ابھی ٓتے ہی ہوں گے تب تک آپ کیلئے چائے بلاتی ہوں۔میں ایک شکستہ حال کرسی پر بیٹھ گیا کیونکہ کمرے میں کوئی صوفہ موجود نہ تھا ۔۔ چند کرسیاں اورایک پرانا سا میز اس کے علاوہ دیواروں پر موجود سیمنٹ بھی اب دیوار کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ نامناسب روشنی کی وجہ سے کمرہ میں گھٹن سی ہو رہی تھی، اندھیرے میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوا تو دیوار پر کچھ احادیث لکھی نظرآئیں۔ وقت گزارنے کے لیے انہیں پڑھنا شروع کیا ،پہلی حدیث جس پر نظر پڑی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ”بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے” ایک اور حدیث مبارکہ پر نظر پڑی جویہ تھی ” سیکھنے والے بن جاؤ یا سکھانے والے اس کے علاوہ تیسرا کوئی رستہ اختیار نہ کرو” اتنے میں بوڑھی خاتون خود چائےہاتھوں میں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا اور بے ساختہ منہ سے نکلا کہ” آپ کسی بچے کے ہاتھ بھیج دیتیں خود کیوں زحمت کی” خاتون یہ سن کر ٹھٹک سی گئیں ، جھریوں والے چہرے پر تاریکی ہونے کے باوجود ایک کرب کی لہر میں واضح دیکھ سکتا تھا۔ جسے انہوں نے ایک مسکراہٹ سے چھپاتے ہوئے کہا کہ بچے تو کب کے ہم تینوں کو چھوڑکر چلے گے۔ میرے منہ سے نکلا تینوں؟ تو انہوں نے ڈوپٹہ کے پلو سے گرتے ہوئے آنسو ؤںکو صاف کرتے ہوے کہا “ہاں مجھے، ماسٹر جی کو اور ہماری غربت کو”۔
میرادل دہل سا گیا کہ کیا بچے اپنے والدین کو غربت کی وجہ سے بھی چھوڑ سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے قابل استاد کو؟ اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ماں جی نے کہا استاد جی آ گئے۔ استاد جی نے اپنی پرانی سائیکل کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا اور ماں جی کے بتانے پر مجھ سے ملنے اندر چلے آئے۔ درمیانہ سا قد، بوسیدہ مگر صاف کپڑے ، پرانی چپل، آنکھوں پرعینک مگر شیشے پرانے ہونے کی وجہ سے دھندلائے ہوئے۔ میرے اندر کی گھٹن بڑھ گئی ،میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ مقام دیا معاشرے نے ایک استاد کو ،جس نے اپنی جوانی معاشرے کے نوجوانوں کو سنوارنے میں گنوادی۔ اپنی بینائی بچوں کی لکھائی خوبصورت بنانے میں گنوا بیٹھا۔
میرا حال چال پوچھنے کے بعد ماسٹر جی نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ۔بتانے لگے کہ ایک تو مالک مکان نے کرایہ کا شورڈالا ہوا ہے اوپر سے بینکوں میں پنشن لینے کیلئے لمبی لائن وہ بھی بغیر سایبان کے اور اوپر سے اس عمر میں سائیکل کا ہی بس سہارا ہے۔یہ ساری باتیں وہ ایک مسکراہٹ چہرے پر سجائے کر رہے تھے۔ میں نے درمیان میں پوچھا کیا آپکو کبھی دکھ ہوا یا پیشمانی کہ آپ تدریس کے شعبے میں آگئے؟ تو مسکرا کر کہتےہیں یہ پیغمبروں کا پیشہ ہے ،ایک مقدس پیشہ ہے۔ کوئی کاروبار نہیں ۔تو میں نے کہا اس نفسا نفسی کے دور میں ہر ایک کا دل کرتا ہے اسکا اپنا گھر ہو، گاڑی ہو، ہر طرح کی سہولیات بھی ہوں تو استاد جی نے کہا اس کائنات کو خدا نے ایک تکون کی شکل میں پیدا کیا ہے جس کے ایک کونے میں انسان، دوسرے پر خدا اور تیسرے پر کائنات ہے۔ ساری کائنات انسان کیلئے مسخر ہے اور اگر انسان اسی کائنات کے سامنے جھک جائے تو یہ مقام انسانیت کی توہین ہے کیونکہ وہ اپنے سے کمتر کو سجدہ کرتا ہے۔ اور اگر انسان اپنے سے برتر یعنی اپنے خالق کو سجدہ ریز ہو تو اقبال بھی کہہ اٹھتا ہے۔
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حسن نصیر سندھو کے کالمز
-
گلابی چلبلا
بدھ 1 ستمبر 2021
-
سریلی دیگ، شاعرانہ رائتہ
منگل 29 جون 2021
-
سسرائیل اور اسرائیل
پیر 28 جون 2021
-
میرے پیارے سسر جان
منگل 26 جنوری 2021
-
ہاں میں ایک استاد ہوں
منگل 6 اکتوبر 2020
-
رمضان اور ہمارے شوشے
اتوار 26 اپریل 2020
-
مرنے کے آسان طریقے
پیر 30 مارچ 2020
-
گھریلو بندش اور پاکستانی عوام
جمعہ 27 مارچ 2020
حسن نصیر سندھو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.