یہ دُنیا فانی ہے

اتوار 29 نومبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

آئیں ذرا کچھ منظر کشی کرتے ہیں، کہ کتنے لوگ تھےجو ہمارے ساتھ چلتے ہوتے تھے، آپ ذرا اپنے ذہن پر زور دیں، بچپن کے دوست، کلاس فیلوز، ہمارے اِرد گِرد رہنے والے لوگ، رشتہ دار، عزیزو اقارب،اباؤاجداداور کتنے ہمارے مخالفین یہ ساری فہرست ذرا اپنےذہن میں لائیں۔ تو ایک دم خیال آتا ہےکہ فلاں بھی چلا گیا، فلاں بھی چلا گیا۔ اور کئی ایسے لوگ ہیں کہ برسوں بعد یاد آتا ہے کہ ہاں وہ بھی تھامگر اب مٹی کا رزق بن گۓ۔

کہانی بہت مختصر سی ہےجو اکڑاکڑ کے چلتے تھےآج وہ مٹی کا رزق بن گۓ ہیں۔ جو اپنے بدن پر چٹکی بھر مٹی بھی نہ پڑنے دیتے تھے،آج انکےکفن بھی تار تار ہو گۓ۔
کسی ولئ بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ!قبرستانوں میں جا کر دیکھو کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

بدن خاک میں مِل گۓ۔ ہڈیاں چور چور ہو گئ۔ قبروں کے نشان بھی مِٹ گۓ۔ قُطبےبھی ٹوٹ گۓ۔


مِٹ گیا مُشتاقؔ دل سے رنگِ یادِ رفتگاں”
پھول مہنگے ہوگئے، قبریں پُرانی ہو گئی
اب کون کسی کو یاد کرتا ہےاور اِسی طرح ہم مِل کر مِٹی کا رزق بننے والے ہیں۔ لیکن کوئ ایسا کام چھوڑ جائیں گے۔ اپنے رب سے جُڑ جائیں گے۔ اپنے رب کے بندوں سے جُڑ جائیں گے۔ رسولِ کریم۔ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ کے دامن کو تھام لیں گے۔

  تو پھر موت بھی مرنے نہیں دے گی۔ پھر سُرخرو اور سَر بُلند ہونگے۔ پھر عزتّوں کے تاج سَروں پر رکھے جائیں گے۔ اور یہ سب تب ہوگا جب ہم اِن سے جُڑ جائیں گے۔ تو یہ مُختصر سی زندگی، زندگی کے تمام تر لُطافتوں کے حصول کے ساتھ گزرنی چاہئیے۔ کتنے نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی توبہ کو مؤخِر رکھا بُڑھاپے کے لئے اور آج قبُرستانوں میں دفن ہیں۔ وہ سوچتے تھے کہ ابھی جوانی ہے۔

جوانی سے لُطف اندوذ تو ہو لیں۔ بُڑھاپے میں توبہ کرلیں گے۔ لیکن بُڑھاپا نہیں آیا موت آگئ۔ موت تو بَر حق ہے، یہ تو آکررہنی ہے۔ لیکن بُڑھاپا لازم نہیں کہ ضروری آۓ۔ تو ہمیں غرور کِس پہ، ناز کِس پہ، تکبُر کِس پہ۔ تو یہ چند لمحات کی فانی زندگی جو خُداوند کی امانت ہےاسکو اُس کے نام پر گُزاریں۔ اگر ہم نے اچھے دِن گُزارے ہیں تو ہمیں مُبارک ہو، اور اگر اِس کے بَر عکس ہیں تو توبہ کرنی چائیے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ توبہ کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لۓ بند ہو جائیں۔ اور ندامت و پچھتاوا ہمارا مُقدر بَن جاۓ۔ اِس زندگی کی کوتاہیوں سے توبہ کرنی چائیے۔ ہم سب اپنی زندگی کے اہداف طے کریں۔ زندگی کے مقاصد طے کریں۔ یہ آج مُشکل ہے مگر یقین جانیں کل آسان ہوگا۔ کہیں ہم یہ نہ سمجھتے رہیں کہ ہاں میں اہم تھا اور یہی میرا وہم تھا۔
اے اِبنِ آدم تیری زندگی بس اتنی سی ہے
ابتدا اذان سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور انتہا نماز پر
جب انسان اِس دنیا میں آتا ہے تو اِس کے کان میں اذان کی گونج دی جاتی ہے۔ جو اِس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی ہے۔ پھر جیسے  جیسےانسان زندگی کے مراحل طے کرتا ہے۔ تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب وہ اِس دنیا میں ہمیشہ رہے گا، اور یہی گمان اُسے موت کے قریب لے جاتا ہے۔ اور پھر عین اُسی وقت اُس اذان کی نماز ہوتی ہے جو اِس دنیا میں آتے ہی ہم نے سُنی اوراُس کی نماز دُنیا سے جانے کے لۓ۔


خواجہ عزیز الحسن مجزوبؒ ۔ نے کیا خوب فرمایا جو رہتی دنیا تک ایک پِنہاں پیغام ہےکہ۔
جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گۓ لامکاں کیسے کیسے
ہو نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئ آسماں کیسے کیسے
بڑی ہی سادہ بات اور قابلِ غُور بھی ہے کہ اِس قلیل زندگی کو دائمی نہ سمجھیں۔ ہمارا اِس فانی جہاں میں آنا ایک مقصد ہے اُس مقصد کو پورا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی گلی میں زندگی کی شام ہو جاۓ۔ خُداوند ہمیں عمل کی توفیق دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :