اُردو کا مقدمہ

پیر 5 اپریل 2021

Humayun Shahid

ہمایوں شاہد

بارہویں صدی عیسوی سے وجود میں آنے والی زبان اردو، جو کہ وطن عزیز پاکستان کی قومی زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے. اپنے زوال کا سبب جاننا چاہتی ہے، اسی سلسلے میں یہ ایک مقدمہ پیش کرتی ہے کہ کون ہے میرے زوال کا قصوروار؟
اس مقدمہ کی سماعت کو غور سے سماعت فرمائیں. کیونکہ یہاں اردو زبان اپنے زوال کی وجوہات جج صاحبان یعنی آپ سامعین کے سامنے پیش کرے گی.

آپ سامعین یعنی جج صاحبان فیصلہ کریں گے کہ کیوں کر اردو زوال کا شکار ہوئی؟
جج صاحب : جی اردو آپ کا مقدمہ کیا ہے؟ بیان کریں
اردو: جج صاحب میرا مقدمہ دراصل میرے زوال کی کہانی ہے. وہ بھی کیا دن تھے جب میرا طوطی بولتا تھا.

(جاری ہے)

کلکتہ سے لے کر لکھنؤ تک ہر جگہ میرے اعزاز میں محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں. مجھے کیا بہترین انداز میں بولا جاتا تھا.

برصغیر میں میری بہت تکریم کی جاتی تھی. یہاں تک کہ پاکستان کے بانی قائداعظم نے مجھے اپنے ملک کی قومی زبان تک قرار دیا تھا. لیکن پھر کچھ وجوہات کی بنا پر میرا تمام تر سٹیٹس کم ہوتا رہا. اور آج تو یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ پورے ملک میں چند افراد ہی میرا بوجھ اُٹھا پاتے ہیں اور مجھے درست ادائیگی کے ساتھ لکھ اور پڑھ لیتے ہیں. جج صاحب میں آپ کے پاس اس امید سے آئی ہوں کہ میرے زوال کے سفر میں کچھ مزاحمت آجائے.

مجھے اب بھی پہلے جیسی نہ سہی مگر کچھ عزت و تکریم نصیب ہوجائے.
جج صاحب: اردو میں آپ کا تمام تر مقدمہ سمجھ گیا ہوں. میں بھی آپ کے زوال کی وجوہات جاننا چاہتا ہوں. تاکہ ان وجوہات کا کوئی سدباب کرکے آپ کی عزت و تکریم کو دوبارہ سے بحال کیا جائے. جی اپنا مقدمہ جاری رکھیں.
اردو: جی جج صاحب میرے زوال کی ویسے تو انگنت وجوہات ہیں. لیکن وقت کی نزاکت بھی ہے اس لئے میں آپ کے سامنے مختصر طور پر ان وجوہات کو سامنے رکھوں گی .

جس سے کم وقت میں میری بات آپ کو سمجھ بھی آجائے. میرے زوال کی سب سے پہلی وجہ تو مجھے آئینی طور پر رائج نہ کرنا ہے جب کہ آئین کی شق(1) 251 مجھے ملک کی واحد زبان کا درجہ دیتی ہے. لہٰذا اس لحاظ سے مجھے اس آئینی غلامی میں رکھا گیا اور میرے ساتھ انگریزوں کی زبان انگریزی کو میری جگہ دے دی گئی. جب کہ یہ مقام تو میرا تھا. یہی وہ پہلی وجہ ہے جس کے بعد سے میرا زوال شروع ہوگیا تھا.

نیز یہی وہ وجہ ہے جس سے مزید وجوہات جنم لیتی ہیں. وجوہات کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب مجھے آئینی طور پر نافذ نہ کیا گیا تو تعلیم کے میدان میں بھی انگریزی بازی لے گئی اور میری وقعت وہاں بالکل ایک سبجیکٹ جنتی رہ گئ. جبکہ دنیا بھر کے علوم کو میں بھی طلباء و طالبات کے سینوں تک پہنچا سکتی تھی. لیکن مجھے یہ حق نہ دیا گیا اور میرے وطن کے طالب علموں کو ان کی قومی زبان کی بجائے ایک باہر کی زبان میں یہ سب علوم حاصل کرنا پڑے.

جس سے بعض طالب علم تو ہمت بھی ہار گئے اور یہاں تک کہ انھوں نے تعلیم ہی چھوڑ دی. یہاں ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر میں یعنی اردو ان سب علوم کو لے کر چلتی تو تعلیم کو ہر کوئی ذوق و شوق سے حاصل کرتا اور پھر یہ تعلیم ہر کسی کی دسترس میں بھی ہوتی. پھر یہ نہ ہوتا کہ صرف مخصوص لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے، میں ان تمام علوم کو اپنی مٹھاس کے ساتھ ہر پاکستانی کے سینوں تک پہنچا سکتی تھی.

لہٰذا میرا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ مجھے سب سے پہلے آئینی غلامی کا طوق اتار کر ملک کی واحد زبان کا درجہ دیا جائے. تاکہ میں تعلیمی میدان میں اپنے پاکستانیوں کی بھرپور خدمت کرسکوں. تیسری وجہ جو کہ میرا زوال ہی نہیں بلکہ میری جگ ہنسائی کی وجہ بھی یہی بن رہی ہے کہ مجھے ثقافتی بیگانگی قرار دے دیا گیا. جس کے بعد سے ہر جگہ میری عزت میں اور میری چاہت میں مزید کمی ہوتی گئی.

اور آج تو بیگانگی کا یہ حال ہے کہ میرے اپنے ملک والے مجھے سہی انداز میں بیان نہیں کرسکتے. یہاں مجھے مڈل کلاس کے سٹیٹس کے طور پر لیا جاتا ہے. کیونکہ یہاں تو سرکاری حوالے سے دیکھ لو یا عسکری یا پھر کوئی بھی حوالہ لے لیں ہر طریقے سے مجھے کمزور کیا جارہا ہے اور میری وقعت کم کی جارہی ہے. آج انٹیلیجنس کا پیمانہ اردو نہیں بلکہ انگریزی کو سمجھا جارہا ہے.

یہی سب سے بڑا زوال ہے میرا جج صاحب! میں امید کرتی ہوں کہ میں نے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ وجوہات بیان کردیں ہے. امید ہے کہ آپ کی عدالت سے اس زوال کا سدباب شروع کیا جائے گا.
جج صاحب : اردو آپ واقعی بہت ہی عمدہ اور شیریں زبان ہو. میں خود بھی بہت پریشان ہوں اس انگریزی سے یہاں تک کہ میرا لکھا ہوا فیصلہ یہاں چند افراد کے علاوہ کوئی عام پاکستانی سمجھ نہیں پاتا.

کیا کروں ہماری مجبوری بن چکی ہے. ہمیں فیصلے انگریزی میں لکھنے پڑتے ہیں. ہاں اگر آج اردو کا نفاذ عمل میں لایا جائے تو ہماری کیا بلکہ بہت سے لوگوں کی مشکلات کم ہو جائیں گی. مجھے خوشی ہے کہ مجھے آج اس مقدمے کی سماعت کا موقع ملا. میں امید کرتا ہوں کہ میں اس اردو کی خدمت میں جتنا ہوسکا اس کے زوال کے خلاف اقدامات کروں گا. کورٹ اس مقدمہ کی سماعت پوری کرتے ہوئے آپ پر یہ فیصلہ چھوڑتی ہے کہ جتنا ہوسکے اردو کو اپنی زندگیوں میں رائج کریں. حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ اس کو دفاتر اور تعلیم گو کہ ہر میدان میں اس کا نفاذ عمل میں لائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :