اِس جہان سے اُس جہان، بیٹے کا ماں کے نام خط

ہفتہ 18 ستمبر 2021

Humayun Shahid

ہمایوں شاہد

اسلام علیکم! پیاری ماں جی آپ کیسی ہیں؟ امید ہے آپ خیریت اور سکون سے ہوں گی. آپ کو ہم سے رخصت ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے. مورخہ 9 ستمبر 2021 میرے لیے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں، یہی وجہ ہے کہ میں اس سانحے کو بھلا نہیں سکتا. آپ نے وقت سے پہلے ہمیں چھوڑ دیا. اس بات کا رنج عمر بھر کا سوگ بن گیا ہے. آپ میرے لیے صرف ماں نہیں تھیں، بلکہ ماں کی صورت میں ایک زیرک اور مخلص دوست بھی تھیں.

آپ کی کمی زندگی کے ہر مرحلے میں محسوس ہوگی. آپ کے جانے کے بعد سب رشتہ دار جو زندگی بھر آپ سے شکوہ شکن رہتے تھے، آپ کے لئے تعریفی کلمات کا استعمال کر رہے ہیں اور آپ کے حسن سلوک اور خوش اخلاقی کا اعتراف کر رہے ہیں.
آپ کا ہونا باعث نعمت تھا.

(جاری ہے)

آپ کا وجود ہماری رہنمائی کا استعارہ تھا. ماں اور باپ کا رشتہ دنیا میں واحد پر خلوص رشتہ ہوتا ہے.

نیز ماں کو ﷲ نے باپ کی نسبت تین درجے مقدم رکھا ہے. یہی وجہ ہے کہ ﷲ نے اپنی محبت کے درجات کو 70 ماؤں کی محبت سے تشبیہ دیا. ماں وہ باغبان ہے جو کسی بھی درخت کی بنیادی نشوونما کرتی ہے. وہ اس کو پروان چڑھاتی ہے. نیز اس کو بر وقت پانی دے کر سوکھنے سے بچاتی ہے. ویسے تو سب کی مائیں خوبصورت ہی ہوتی ہیں. پر میری ماں میرے لئے جنت کی کسی حور سے کم نہیں تھی.

اور آخری کچھ لمحات جب آپ نے دنیا میں گزارے تو سب نے دیکھا کہ آپ نے خوبصورت پری جیسی صورت اختیار کی ہوئی تھی.
آپ کے جنازے میں عوام کا جم غفیر تھا. آپ کو ﷲ نے دو جنازوں کی سعادت نصیب فرمائی. نیز اس دوسرے جنازے کی امامت آپ کے چھوٹے بیٹے نے خود کروائی. ماں جی آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو جلد از جلد گھر سے رخصت کیا گیا. اور رات کی تاریکی میں آپ کو شہر خموشاں میں سپرد خاک کیا گیا.

آپ کی وصیت تھی کہ جب مجھے زیر زمین چھوڑ جاؤ تو کچھ دیر قیام کرنا. تاکہ میں قبر کی پہلی رات ، تمام سوالات کا با آسانی جواب دے سکوں اور میرا معاملہ آسان ہوسکے. خیر آپکی اس وصیت کو بھی عملی جامہ پہنایا گیا. ویسے تو میرا دل تھا کہ اُس رات آپ کے پاس قیام کرتا. لیکن دنیا کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکا.
 خیر رسم و رواج بھی تو پورے کرنے تھے.

بیشک آپ کسی بھی فوتگی والے گھر کا کھانا نہیں کھاتی تھیں. اور نہ آپ قل خوانی میں بٹنے والی چیزیں پسند کرتی تھیں. لیکن خلاف دنیا بھی تو چلا نہیں جا سکتا ماں جی! خیر یہ سب ہمیں کرنا پڑا . اصل بات یہ ہے کہ ماں جی کوئی آپ کی طرح درد خواں تھا ہی نہیں جو کسی کے درد اور غم کو محسوس کرتا. جس طرح سے آپ لوگوں کو حوصلہ دیتی تھیں. ہمیں اُس طرح حوصلہ دینے والے تھے مگر کم تھے.

خیر ہمیں تو ﷲ کی طرف سے صبر و حوصلہ عطا ہوا تھا. لیکن اس سب صبر کے باوجود جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کو سب کے ہوتے ہوئے بھی خالی پایا تو شدت سے آپ کی یاد ستانے لگی. مگر میں یہ آنسو ﷲ کی رضا سمجھ کر پی گیا. دنیا والوں کا کیا عجب طور ہے کہ جب میت پاس ہوتی ہے تو با آواز گریہ کرتے ہیں. لیکن میت کے جانے کی دیر ہوتی ہے سب دنیاوی لغویات میں مصروف ہوجاتے ہیں.

شاید یہی رسم دنیا ہے. کیونکہ اُن کے لئے وہ غم عارضی ہے. جس کا جتنا نقصان ہوتا ہے اُس کو اُتنا ہی گہرا صدمہ پہنچتا ہے. تو جس نے آپ کے جانے کو جتنا محسوس کیا، اُس نے اتنا ہی سوگواری کا مظاہرہ کیا.
خیر یہ دنیا والوں کے رویوں پر بات ہوتی رہے گی. جس وجہ سے میں نے آپ کو بوجھل دل، شکستہ حال اور ٹوٹے ہوئے قلم سے خط لکھا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو ہفتہ ہوا ہے رخصت ہوئے.

آپ نے دیدار نہیں کروایا. ماں جی ایک وقت ہوتا تھا، آپ کا دیدار سراپا سکون ہوتا تھا اور ایک منظور حج کا ثواب مل جاتا تھا. آج اُسی دیدار کو کیے ہفتوں ہوگئے ہیں. خیر سکون تو آپ کی قبر پر بھی اتنا ہی محسوس ہوتا ہے. مجھے یقین ہے کہ آپ جنت کے باغات سے محظوظ ہو رہی ہیں . ہماری دنیا کی آپ کو یاد بھی اب مشکل ہی آئے گی. کیونکہ اب تو آپ ﷲ رب العزت کی مہمان نوازی کا مزہ چکھ رہی ہیں.

اور یہاں (دنیا) تو آپ والد محترم سے اپنی خواہشات ظاہر کیا کرتی تھیں. لیکن اب تو اُس جہان فانی میں ﷲ پاک سے براہ راست اپنی خواہشات کی تکمیل کروا رہی ہوں گی. اور یقیناً اس کی شان عظمیٰ کے کیا کہنے وہ بہت مہربان اور خوب دینے والا ہے. آپ کی وصیت کے مطابق میں نے درود شریف کو اپنا ورد بنا لیا ہے. آپ کی اگر کوئی وصیت باقی رہ گئی ہو تو خواب میں آکر بتا دیجیے گا میں ہر صورت اس کی تکمیل کروں گا.

لیکن اب مزید رہا نہیں جاتا. جلد از جلد میرے خط کا جواب دیں.
امید ہے کہ اب تک جنت میں آپ کو نانی جان اور دادا جان دونوں بڑوں کی ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا ہوگا. اپنی چھوٹی صاحب زادی سے بھی ملاقات ہوگئی ہوگی. اُن سب کو میرا سلام پیش کیجیے گا. ایک دن ہم نے بھی آپ کے پاس آہی جانا ہے. لیکن تب تک مشورہ اور غم گساری کے لئے خواب میں آتی رہنا.

امید ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہوگا. اُن کی بارگاہ اقدس میں میرا درود و سلام ضرور پیش کیجیے گا اور  نبی کریم ﷺ سے میری سفارش بھی کیجیے گا.
آخر میں بس یہی کہوں گا کہ آپ کے ساتھ گزرے خوشگوار لمحات ہمہ وقت یاد آتے ہیں. والد صاحب بھی آپ کی یاد میں بعض اوقات رو دیتے ہیں. جیسے وہ آپ کو خوش رکھتے تھے.

امید ہے اُس سے کہیں زیادہ خوش آپ ﷲ پاک کے پاس ہوں گی. آپ کے ساتھ وہ اٹھکھیلیاں اور مزاح ہمیشہ یاد آئے گا. آپ ہماری ماسٹر مائنڈ تھیں. آپ کی کمی جگہ جگہ محسوس ہوگی. تاہم میں کوشش کروں گا کہ بطورِ بڑا بیٹا جیسے آپ سب کے ساتھ راضی تھیں، میں بھی آپ کے اس اخلاق اور رشتوں کے ساتھ حسن سلوک کو یوں ہی جاری رکھوں.
والسلام
آپ کی یاد میں غمزدہ بیٹا
ہمایوں شاہد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :