
خود کفیل
پیر 30 اکتوبر 2017

حُسین جان
کسی دانشور نے فرمایا ہے اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا ملک دانشوروں (Intellectuals) میں بھی خود کفیل ہے ۔ یہ مخلوق اختلاف رائے اور استعمال جائے میں کسی بھی ملک پیچھے نہیں۔ خود تو کبھی اتحار رائے رکھتے نہیں ہاں قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا درس ضرور دیتے ہیں۔ رشوت ستانی، سفارش، حرام خوری ، مفت خوری ، چاپلوسی، جیسی چیزوں پر صبح شام لعنت ملامت کرتے ہیں مگر یہ تمام خوبیاں خود میں ہر وقت موجود رکھتے ہیں۔ کسی کا بیٹا سرکاری ملازم کوئی خود افسر کوئی وزیر تو کوئی مشیر لگے بیٹھے ہیں ۔ شائد اسی لیے لوگ اب کتوں اور ان میں زیادہ فرق نہیں سمجھتے اُن کے بھونکنے پر کوئی پرواہ نہیں کرتا ان کے لکھے کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اگر کوئی اور موضوع ہاتھ نہ آئے تو اسی غم میں مرئے جاتے ہیں کہ یہ ملک بنا ہی کیوں تھا ؟ اور اگر بن گیا ہے تو اب تک چل کیوں رہا ہے۔
کبھی یہ فوج کو برا بھلا کہتے ہیں ، کبھی ملاؤں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اور تو اور ان کو زیادہ کپڑئے بہننے والیاں بیباں بھی پسند نہیں۔ مسلمانیت کو تمام فسادا ت کی جڑ سمجھتے ہیں ۔ اندونی و بیرونی آقاؤں کو ہر حال میں خوش رکھتے ہیں چاہیے اس کے لیے پینٹ ہی کیوں نہ گیلی ہو جائے۔
ان چیزوں کے علاوہ بھی اس ملک میں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے ، یہاں ہسپتال اور فیکٹریاں ہیں جن کا آپس میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اکثر فیکٹریاں بیمار رہتی ہیں اور بیشتر ہسپتال انڈسٹری بنتے جا رہے ہیں۔ یہی حال جیلوں اور یونی ورسٹیوں کا ہے۔ یہ دونوں ادارے اپنی اپنی جگہ "آزادی " اور "قید"کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن عملا حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یعنی جیلوں سے کئی لوگ رہائی پا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں یا خود بھاگ جاتے ہیں اور سیاسی طلباء یونیورسٹی کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہ سب چیزیں پاکستان کے دم سے ہیں ۔ مگر ان تمام چیزوں کی سب سے زیادہ قدر کرسیوں والے کرتے ہیں۔ اگر اُن کی کرسیاں قائم و دائم رہیں تو خود کئی یونی ورسٹیوں اور ہسپتالوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی کرسیوں سے ہمیشہ مظبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے یہ کرسی کبھی کسی کی سگی نہیں رہی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب بدل جاتے ہیں۔
اپنے میاں صاحب کو ہی لے لیں۔ سیاست میں جتنا عروج انہیں نصیب ہوا ہے کسی اور کو نہیں ۔ لیکن جیسے ہی کرسی ہاتھ سے گئی اور تو اور گھر کے افراد بھی انہیں بے روزگار کی حثیست سے دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب عملی طور پر ایک بدنصیب باپ ہیں۔ کیونکہ ہم نے اکثر بچوں کو دیکھا ہے جو اپنے باپ کی فیکٹری اور کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ میاں صاحب پہلے سیاستدان ہیں جو اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ اور وہ بھی بنا تنخواہ کے۔ یعنی ان کی حالت اُس بزرگ کی سی ہو گئی ہے جو گھر کی رکھوالی باہر چاپرائی ڈال کر کرتا ہے اور بدلے میں صرف دو وقت کی روٹی کا تقاضا کرتا ہے۔
شریف فیملی کا پورا خاندان عجیب و غریب روایات کا مالک ہے۔ یہاں پتا نہیں چلتا کون کس کا ملازم ہے اور کون ملک کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیے ہے۔ کبھی بیٹوں کو آگے کر دیا جاتا ہے کبھی بیٹیوں کو۔ جلے میں بیٹی لاکھوں کے مجمے کے سامنے تقریر کرتی ہے اور بڑئے دھڑلے سے کرتی ہے ۔ جبکہ جے آئی ٹی کے دو ممران بھاری پڑتے ہیں۔ سنا ہے اب ملک سپورٹس کمپلیس میں بھی خود کفیل ہو رہا ہے۔ کل ایک لڑکا دُکان پر ملنے آیا جس کے ابا کو حال ہی میں فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔ وہ کہ رہا تھا کیا ہی اچھا ہوتا اگر سپورٹس کمپلیس کی جگہ سرکار نئے ہسپتال بنا دیتی۔ اب اس بھلے مانس کو کون سمجھائے کہ لوگ ورزش کریں گے تو خود ہی بیمار نہیں ہوں گے۔ اور اگر تہمیں یہ ملک پسند نہیں تو بی بی کلثوم نواز کی طرح تم بھی اپنے ابا کا علاج بیرون ملک کروا لو۔ اگر اتنی اوقات نہیں تو چپ کر کے ابا کو مرتے دیکھو۔
سیاسی کارکنان میں تو یہ ملک سالوں سے خود کفیل چلا آرہا ہے۔ یار لوگ ان کو چمچہ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ جن کا کام ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی کام نہیں کرنا ۔ بس سارا سارا دن اپنے محبوب لیڈر جو ان کو اپنے ابے اور بال بچوں سے بھی محبوب ہوتا ہے کہ قصیدے پڑھنے ہیں اور ضرورت پڑنے پر پولیس سے چھترول بھی کروانی ہے۔ محلے کا جتنا بڑا آوارہ ہو گا وہ اُتنا بڑا ہی سیاسی کارکن کہلائے گا۔ ایک عدد پلیٹ بریانی کے لیے یہ اپنے پرکھوں کی عزت بھی داؤں پر لگانے کو تیار رہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پرکھوں کی نہ کبھی پہلے عزت تھی نہ آج ہے۔
اب تو ماشاء اللہ سڑکوں میں بھی خود کفیل ہیں۔ بچے پہلے گھروں میں پھر ہسپتالوں میں اور اب سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کر سکیں لہذا جنہوں نے مزید بچے پیدا کرنے ہے اُن کے لیے پنجاب حکومت نے سڑکوں کا خاطر خواہ بندوبست کیا ہے۔ اور اگر آپ کو بچے پیدا کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو کسی ایسے ملک میں چلیں جائیں جہاں بچے پیدا کرنے پر وظیفہ ملتا ہے۔ یہ جو میاں صاحب نے اتنے بڑئے بڑئے پُل بنا رکھیں ہیں آخر یہ کس دن کام آنے ہیں ۔ منصوبہ بندی پر تو آپ عمل نہیں کرتے لہذا ایک وقت ایسا بھی آنا ہے بچے پیدا کرنے کے لیے یہ سڑکیں بھی کم پڑ چائیں گی۔
(جاری ہے)
ان چیزوں کے علاوہ بھی اس ملک میں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے ، یہاں ہسپتال اور فیکٹریاں ہیں جن کا آپس میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اکثر فیکٹریاں بیمار رہتی ہیں اور بیشتر ہسپتال انڈسٹری بنتے جا رہے ہیں۔ یہی حال جیلوں اور یونی ورسٹیوں کا ہے۔ یہ دونوں ادارے اپنی اپنی جگہ "آزادی " اور "قید"کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن عملا حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یعنی جیلوں سے کئی لوگ رہائی پا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں یا خود بھاگ جاتے ہیں اور سیاسی طلباء یونیورسٹی کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہ سب چیزیں پاکستان کے دم سے ہیں ۔ مگر ان تمام چیزوں کی سب سے زیادہ قدر کرسیوں والے کرتے ہیں۔ اگر اُن کی کرسیاں قائم و دائم رہیں تو خود کئی یونی ورسٹیوں اور ہسپتالوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی کرسیوں سے ہمیشہ مظبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے یہ کرسی کبھی کسی کی سگی نہیں رہی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب بدل جاتے ہیں۔
اپنے میاں صاحب کو ہی لے لیں۔ سیاست میں جتنا عروج انہیں نصیب ہوا ہے کسی اور کو نہیں ۔ لیکن جیسے ہی کرسی ہاتھ سے گئی اور تو اور گھر کے افراد بھی انہیں بے روزگار کی حثیست سے دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب عملی طور پر ایک بدنصیب باپ ہیں۔ کیونکہ ہم نے اکثر بچوں کو دیکھا ہے جو اپنے باپ کی فیکٹری اور کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ میاں صاحب پہلے سیاستدان ہیں جو اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ اور وہ بھی بنا تنخواہ کے۔ یعنی ان کی حالت اُس بزرگ کی سی ہو گئی ہے جو گھر کی رکھوالی باہر چاپرائی ڈال کر کرتا ہے اور بدلے میں صرف دو وقت کی روٹی کا تقاضا کرتا ہے۔
شریف فیملی کا پورا خاندان عجیب و غریب روایات کا مالک ہے۔ یہاں پتا نہیں چلتا کون کس کا ملازم ہے اور کون ملک کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیے ہے۔ کبھی بیٹوں کو آگے کر دیا جاتا ہے کبھی بیٹیوں کو۔ جلے میں بیٹی لاکھوں کے مجمے کے سامنے تقریر کرتی ہے اور بڑئے دھڑلے سے کرتی ہے ۔ جبکہ جے آئی ٹی کے دو ممران بھاری پڑتے ہیں۔ سنا ہے اب ملک سپورٹس کمپلیس میں بھی خود کفیل ہو رہا ہے۔ کل ایک لڑکا دُکان پر ملنے آیا جس کے ابا کو حال ہی میں فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔ وہ کہ رہا تھا کیا ہی اچھا ہوتا اگر سپورٹس کمپلیس کی جگہ سرکار نئے ہسپتال بنا دیتی۔ اب اس بھلے مانس کو کون سمجھائے کہ لوگ ورزش کریں گے تو خود ہی بیمار نہیں ہوں گے۔ اور اگر تہمیں یہ ملک پسند نہیں تو بی بی کلثوم نواز کی طرح تم بھی اپنے ابا کا علاج بیرون ملک کروا لو۔ اگر اتنی اوقات نہیں تو چپ کر کے ابا کو مرتے دیکھو۔
سیاسی کارکنان میں تو یہ ملک سالوں سے خود کفیل چلا آرہا ہے۔ یار لوگ ان کو چمچہ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ جن کا کام ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی کام نہیں کرنا ۔ بس سارا سارا دن اپنے محبوب لیڈر جو ان کو اپنے ابے اور بال بچوں سے بھی محبوب ہوتا ہے کہ قصیدے پڑھنے ہیں اور ضرورت پڑنے پر پولیس سے چھترول بھی کروانی ہے۔ محلے کا جتنا بڑا آوارہ ہو گا وہ اُتنا بڑا ہی سیاسی کارکن کہلائے گا۔ ایک عدد پلیٹ بریانی کے لیے یہ اپنے پرکھوں کی عزت بھی داؤں پر لگانے کو تیار رہتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پرکھوں کی نہ کبھی پہلے عزت تھی نہ آج ہے۔
اب تو ماشاء اللہ سڑکوں میں بھی خود کفیل ہیں۔ بچے پہلے گھروں میں پھر ہسپتالوں میں اور اب سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کر سکیں لہذا جنہوں نے مزید بچے پیدا کرنے ہے اُن کے لیے پنجاب حکومت نے سڑکوں کا خاطر خواہ بندوبست کیا ہے۔ اور اگر آپ کو بچے پیدا کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو کسی ایسے ملک میں چلیں جائیں جہاں بچے پیدا کرنے پر وظیفہ ملتا ہے۔ یہ جو میاں صاحب نے اتنے بڑئے بڑئے پُل بنا رکھیں ہیں آخر یہ کس دن کام آنے ہیں ۔ منصوبہ بندی پر تو آپ عمل نہیں کرتے لہذا ایک وقت ایسا بھی آنا ہے بچے پیدا کرنے کے لیے یہ سڑکیں بھی کم پڑ چائیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.