مصنوئی قلت

بدھ 13 اکتوبر 2021

Hussain Jan

حُسین جان

ایک خبر کے مطابق ڈ ینگی بخار کے سر اٹھاتے ہی مارکیٹ میں پینا ڈول کی گولی نایاب ہوگئی ہے۔ اندازہ لگائیں اس قوم کی گندی فطرت کا۔ یہاں جب جب عوام کو کسی چیز کی ضرورت پڑی تاجروں نے وہ چیز سرئے سے ہی غائب کردی۔مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ زائدنرخوں پر چیز بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ پاکستان کا شروع سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں جب جب عوام کو کسی چیز کی ضرورت پڑی ہے وہ مارکیٹ سے غائب کردی جاتی ہے۔


کرونا کی مثال ہی دیکھ لیں لوگوں کو آکسیجن کی ضرورت پڑی تو مارکیٹ سے آکسیجن ہی غائب کردی گئی۔ اسی طرح نجی ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے رہے۔ اور تو اور سرکاری ہسپتالوں میں بھی وینٹی لیٹر اسے دستیاب ہوتا جس کے پاس تگڑی سفارش ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

گرمیوں میں عوام کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے تو بجلی غائب کردی جاتی ہے۔ سردیوں میں گیس کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ناپید ہوجاتی ہے۔


یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے اس قوم کے خمیر میں ہی دونمبری شامل ہیں۔ یہاں بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کی رشوت لے کر اجازت دے دی جاتی ہے لیکن بعد میں نئے آنے والے مزید رشوت کی ڈیمانڈ شروع کردیتے ہیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ما ل بردار گاڑیوں تک پیسے لے کر فٹنس سرٹیفیکس دے دیے جاتے ہیں اور پھر جب کوئی بڑا حادثہ ہوجاتا ہے تو حکومتیں فورا متحرک ہوجاتی ہیں۔

یعنی کہ جب سانپ گزر جاتا ہے تو ہم لکیر پیٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ جب آتا ہے تو عالم اسلام میں ایک عجیب سی روحانیت پھیل جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں روزہ داروں کو یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ یار اب کیا کریں اس مہینے تو ہمارے پیارے اور سچے مسلمان بھائی چیزوں کی قیمتوں کو آسمان پر چڑھا دیتے ہیں۔
آج کل ربیع اول کا مہینہ چل رہا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے مہینے ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے گھر میں چراغاں کرئے۔ بڑی بڑی عمارتوں کو سجا دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے تاجر بھائی یہاں بھی ہمیں مات دے جاتے ہیں۔ گھروں میں لگانے والی جگنوں لڑی جو کہ چالیس روپے میں دستیاب تھی اب اس کی قیمت دو سو روپے کردی گئی ہے۔ اسلامی جھنڈوں کی قیمتوں کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ویسے اگر آپ ان تاجروں کے حلیے دیکھ لیں تو یوں دیکھائی دیں گے جیسے ان سے بڑا دنیا میں کوئی نیک بندہ نہیں۔


14اگست پاکستان کی آزادی کا دن ۔ اس مہینے بھی لوگوں اور بچوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں قومی پرچم لہرائیں لیکن یہ ظالم تاجر یہ چھوٹی سی خوشی بھی عوام سے چھین لیتے ہیں۔ حکومت نے علان کیا تھا کہ چینی سستے داموں فروخت کی جائے لیکن تاجر برادری نے حکومت کے حکم کو جوتے کی نوک پر رکھا اور عوام کی کھال اتارنے میں مصروف رہے۔

جب بچوں کے سالانہ پیپر ختم ہونے کے بعد نئے سال کا آغاز ہوتا ہے تو مارکیٹ سے کتابیں غائب کردی جاتی ہیں اور جن کے پاس موجود ہوتی ہیں وہ من مانی قیمت وصولتے ہیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں کہ یہاں لو گ صرف اپنے مفاد کو اہمیت دیتے ہیں۔ قومی اور اجتماہی مفاد ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ایسا ہمارے ملک میں ہی کیوں ہوتا ہے۔

اس جواب کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جواب بہت ہی سیدھا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی اجارادہ داری نہیں ہے۔ یہاں قانون غریب کے لے الگ ہے اور امیر کے لیے الگ۔ کہنے کو تو ہمارے ہاں ہر چیز کا قانون موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔ اگر قانون نافذکرنے والے ادارے اپنا کام ایمانداری سے سرانجام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر چیز سستے داموں فروخت ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :