کینٹ میں پی ٹی آئی دھڑے بندی شکار

ہفتہ 31 جولائی 2021

Hussain Jan

حُسین جان

بارہ ستمبر دو ہزار اکیس کو والٹن کینٹ لاہور اور لاہور کینٹ کی بیس یونین کونسلوں میں بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں. والٹن ٹاون میں عمران خان صاحب کا حلقہ این اے 131 بھی آتا ہے. دوہزار اٹھارا میں یہاں سے عمران خان صاحب نے نواز لیگ کے خواجہ سعد رفیق کو سخت مقابلے کے بعد چند سو ووٹوں سے شکست دی تھی. وزیر آعظم کا حلف اٹھانے کے بعد جناب عمران خان صاحب نے یہ سیٹ چھوڑ دی اور ق لیگ سے آئے ہوئے جناب ہمائیوں اختر خان صاحب کو ضمنی الیکشن کے لیے ٹکٹ دیا گیا.

لیکن بد قسمتی سے ہمائیوں اختر خان صاحب جیتی سیٹ کو بچا نا سکے. ایک بات سمجھنے کی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست میں لاہور اور والٹن کینٹ کو مرکزی حثیت حاصل ہے.

(جاری ہے)

یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے تحریک انصاف کو تقویت ملی. کینٹ کے کارکنوں اور ووٹرز کو کوئی دھڑلے کا سیاستدان ہی چلا سکتا ہے. ایک اور بات بتاتا چلوں کہ نواز لیگ کے سعد رفیق کی اپنے حلقے میں  گرفت کافی مظبوط  ہے.

جبکہ اس معاملے میں ہمائیوں اختر خان تھوڑے کمزور ہیں.
بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ٹکٹ تقسیم کرنے میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے. ہر یونین کونسل میں تین تین چار چار دھڑے موجود ہیں جو ٹکٹ حاصل کرنے کے خواشمند ہیں. ن لیگ نے جب ٹکٹ تسیم کیے تو اسے بھی ایک دو یونین کونسلز میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا چونکہ سعد رفیق مکمل اثر و رسوخ رکھتے ہیں لہذا معاملات آسانی سے نپٹ گئے.

دوسری طرف نظر دوڑائی جائے تو دونوں ٹاونز میں تحریک انصاف کی کم از کم تین تین یونین کونسل کے ابھی تک ٹکٹ جاری نہیں ہوئے. شنید ہے کہ یہاں بھی دھڑے بازی اور پسند نا پسند کا عمل دخل ہے.
دھڑے بازی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں میں ہوتی ہے. مخالفین کے خلاف جھوٹا سچا پراپگنڈا بھی کیا جاتا ہے. لیکن اگر انتخابات میں مختلف دھڑے مفاہمت نا کریں تو شکست یقینی ہوتی ہے.

والٹن ٹاون اور لاہور کینٹ ٹاون کی یونین کونسلز میں عبد العلیم خان، شعیب صدیقی، ڈاکٹر مراد راس جیسے موسٹ سینئیر سیاستدانوں کے حلقے بھی آتے ہیں. باوثوق زرائع کے مطابق شعیب صدیقی اور علیم خان نے خود کو اس سارے پراسیس سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے. جبکہ دو یونین کونسلز کا استحقاق صوبائی وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر مراد راس صاحب کو دیا گیا.
ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ جب ٹکٹس کا علان ہوا تو پہلے ایسی فضاء پیدا کی گئی کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ ہمائیوں اختر خان صاحب کو نظر انداز کیا گیا ہے اور ان سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی.

لیکن پھر ان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ تمام ٹکٹس میں ان کی مشاورت اور منشاء شامل تھی. کیونکہ اس ٹاون کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر جناب ہمائیوں اختر خان صاحب ہی ہیں.
اب خبریں گرم ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کو ہرانے کے لیے میدان میں کود پڑیں ہیں. مختلف زرائع استعمال کیے جارہے ہیں.
ابھی تو وہ افراد جنہوں نے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا ریویو میں گئے ہیں اس کے بعد ہی حالات کھل کر سامنے آئیں گے کہ کون سا دھڑا کس طرف کروٹ لیتا ہے.

سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ کچھ ٹکٹ ریورس کیے جائیں گے. اگر ایسا ہوتا ہے تو مزید انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے.
ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ نواز لیگ کے امیدوار پہلے والٹن ٹاون کی دس یونین کونسلوں میں سے نو جیتے ہوئے ہیں. اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ نواز لیگ کی پوزیشن اس ٹاون میں مظبوط ہے. اگر پی ٹی آئی کے تمام دھڑے اکھٹے نا ہوئے تو شکست یقینی ہے.
ایک صحافی دوست کے مطابق عمران خان صاحب خود بھی کینٹونمنٹس کے بلدیاتی انتخابات میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے پنجاب کے صدر اور سینٹر جناب اعجاز چوہدری صاحب کو زمہ داری دے رکھی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے تمام دھڑوں کو ایک پیج پر لائیں.

اب دیکھنا یہ ہے کہ دھڑے بندی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :