کرپشن

منگل 9 نومبر 2021

Hussain Jan

حُسین جان

کہتے ہیں آم پھلوں کا بادشاہ ہوتا ہے اور شراب تمام برائیوں کی ماں۔ اسی طرح پاکستان میں کرپشن تمام سماجی مسائل کی ماں ہے۔ کرپشن پاکستان کہ ہر طبقے میں سرایت کرچکی ہے۔ کرپشن نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرپشن خاکروب سے لے کر اعلی عہدیداروں تک پھیلی ہوئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستانیوں کی بد قسمتی ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے اور رشوت کرپشن کی سب سے بڑی قسم ہے۔

ہمارے ملک کے ایک بڑئے پراپرٹی ٹائیکوں تو سرعام اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی جو بھی فائل رکتی ہے وہ اس فائل کو کرپشن کے ٹائر لگا دیتے ہیں اور پھر یہ فائل بھاگم بھاگ سرپٹ دوڑتی ہے۔
کرپٹ ممالک میں پاکستان 180ممالک میں سے 124نمبر پر ہے۔

(جاری ہے)

ٹرانسپرپرنسی نے پاکستان کو کرپشن میں سو میں سے اکتیس نمبر دیے ہیں۔ جو کہ انتہائی کم ہیں۔

پاکستان میں کرپشن کسی ایک ادارئے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام اداروں میں موجود ہے۔ آج اگر پاکستان دنیا سے اتنا پیچھے ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف کرپشن ہے۔ آپ نے نیا گھر بنانا ہو آپ کو مختلف اداروں میں رشوت دینی پڑتی ہے۔ تبھی آپ اپنا گھر شروع کرسکتے ہیں۔ کبھی نقشے کا مسئلہ تو کبھی کھلی جگہ چھوڑنے کا مسئلہ آپ کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔


آپ کے بچوں نے سکول ،کالج میں داخلہ لینا ہے تو آپ کو رشوت دینی ہوگی۔ تعلیم کاشعبہ کرپشن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اساتذہ سے لے کر بڑئے افسران تک سب کے سب کرپشن میں گردن گردن لتھڑے پڑئے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے طلباء کی وہ تربیت نہیں ہوپاتی جو ہونی چاہیے۔
حال ہی میں کراچی کا نسلہ ٹاور ٹاک آف دی ٹاون بنا ہوا ہے۔ عدالت عالیہ نے حکم صادر فرمایا ہے کہ اس ٹاور کو فی الفور گرایا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت کا یہ فیصلہ زبردست مثال ہے۔ لیکن اس میں ایک رخنہ دیکھائی دیتا ہے۔ عدالت نے فرمایا ہے کہ اس بلڈنگ میں رہنے والے اپنے پیسے بلڈر اور ٹاور کے مالکان سے پورئے کریں ۔ یہ بھی زبردست بات ہے لیکن ہمیں یہاں سرکاری ملازمین کو کوئی سزا نظر نہیں آتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بلڈر ان کی مرضی کے بغیر وہاں تعمیر کرپاتا۔ ظاہر سی بات ہے متعلقہ اداروں نے کرپشن کی ہوگی۔

مالکان سے پیسے بٹوریں ہوگے اسی وجہ سے تو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہوگئی ۔ معزز جج صاحب کو چاہیے تھا کہ ان سرکاری ملازمین کو ان کی نوکریوں سے فارغ کرتے اور ساتھ ہی ان کو بھی برابر کا جرمانہ کرتے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ دوسرئے سرکاری ملازمین اس سے عبرت پکڑتے۔
واپڈا کا ادارہ دیکھ لیں۔ ہم ایک عرصے سے سن رہے ہیں کہ پاکستان میں لائن لاسز کی شرع بہت زیادہ ہے۔

اس کی وجہ سے صارفین کو مہنگے داموں بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ تو کیا واپڈا کے ملازمین کو نہیں پتا کہ کون سا صارف بجلی چوری کررہا ہے۔ ان کو سب معلوم ہے بلکہ ان لوگوں کی منتھلیاں لگی ہوئی ہے۔ یہ ہر ماہ جاتے ہیں اور جو جو لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں ان سے اپنا حصہ وصول کرکے نکل لیتے ہیں۔ ان کو کیا فکر ہے پاکستان اور پاکستانی جائیں بھاڑ میں۔
ریلوئے کا ادارہ دیکھ لیں ۔

ایک وقت تھا پاکستانیوں کی اکثریت ریل کے سفر کو ترجیح دیتی تھی۔ بچپن میں ہمارئے لیے ریل کا سفر ایک افسانوی لمحہ ہوتا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ریل کو کرپشن کھا گئی۔ کبھی مہنگے داموں انجن خریدے گئے کبھی پٹری کو بیچ دیا گیا۔ آپ نے ریلوئے کی کرپشن دیکھنی ہے تو ابھی لاہور میں واقع اسٹیشن پر چلیں جائیں وہاں پر موجود ریلوئے کے پولیس اہلکار یا قلی آپ کو خود ٹکٹ آفر کریں گے۔

آخر وہ ٹکٹ کہاں سے خریدتے ہیں۔ جناب سب کے سب کرپشن کا حصہ ہیں۔
پی آئی اے کو دیکھ لیں۔ تاریخ کہتی ہے پاکستان ائیر لائن نے چین اور مڈل ایسٹ کے بہت سے ممالک کو ائیر لائن بنانے میں مدد دی۔ لیکن آج یہ ادارہ آپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ایک ایک چہاز کے لیے سینکڑوں بندے بھرتی کررکھے ہیں۔ ائیرپورٹ سے شروع ہونے والا کرپشن کا سفر افسران تک جاتا ہے۔


اسی طرح پاکستان کے دیگر ادارئے بھی کرپشن کا گڑھ ہیں۔ پولیس، ماتحت عدلیہ، ایف بی آر ،اینٹی کرپشن کا اداراہ، کس کس ادارئے کا نام لیا جائے سب میں کرپشن موجود ہے۔ دیکھیں جی بات بڑی سیدھی ہے آپ کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے ۔ ہاں لیکن اس کو کم تو کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومتیں سنجیدگی سے اس طرف دھیان دیں توکرپشن کو بڑی آسانی سے کم کیا جاسکتا ہے۔

سیاستدان ہوں یا سرکاری افسران ان کی کرپشن کہانیاں روزانہ اخباروں اور ٹیلی ویثرن کی زینت بنتی ہیں۔ حکومت اگر ان خبروں پر ہی ایکشن لے لے تو کرپشن کے گراف کو نیچے لایا جاسکتا ہے۔ عمران خان صاحب نے کہا تھا میں نوئے دن میں پاکستان سے کرپشن کو ختم کردوں گا لیکن افسوس وہ ایسا نہیں کرپائے۔
چینی، گھی، پتی، آٹا مافیا ہی حکومت سے کنٹرول نہیں ہوپارہا۔

یہ سب کرپشن کی وجہ سے ہے۔ اعلی افسران کو کیا پتا نہیں کہ یہ مافیا کس طرح کام کر رہی ہے۔ ان کو سب پتا ہے جناب اور یہ سب ان کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔ لیکن شومئی قسمت یہ سب کرپشن کی کارستانی ہے۔ جب تک عمران خان بڑے بڑئے لوگوں کو سخت سزائیں نہیں دلواتے تب تک کرپشن کسی صورت بھی کم نہیں ہوگی بلکہ مزید بڑھے گی۔ ہمارا نیب بھی اس معاملے میں تھوڑا کمزور ہے۔

وہ ایک کیس بنانتے ہیں۔ عدالتوں سے تاریخ پر تاریخ لیتے ہیں اور پھر پتا چلتا ہے کہ عدالت نے ملزمان کو ضمانت دے دی۔ یہ ضمانت اس لیے ملتی ہے کہ کیس ہی کمزور ہوتا ہے۔ اگر جاندار کیس ثبوتوں کے ساتھ بنایا جائے تو کبھی ضمانت نا ہو بلکہ سزا ہو۔
بات بڑی سیدھی سی ہے اگر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرنا ہے تو اس کے لیے کرپشن کو اس ملک سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ اور یہ تبی ممکن ہے جب حکومت کی طرف سے سخت سے سخت ایکشن لیا جائے۔ کرپٹ افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور اس کی باقاعدہ تشہیر کی جائے۔ اسی سے کرپشن کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ورنہ پاکستان کو ترقی کرتے دیکھنا خواب ہی رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :