وہ جن سے دُنیا آباد تھی۔ (والد صاحب)

اتوار 1 اپریل 2018

Hussain Jan

حُسین جان

یہ دُنیا ہزاروں سالوں سے چل رہی ہے۔ پتھر کے زمانے سے آغاز ہوا پھر بلندیوں کو چھوتی ہوئی گزرتی چلی جارہی ہے۔ ترقی کی منازل کی رفتار بہت تیز ہے۔ ایسے میں کسی کے پیدا ہونے یا گزر جانے سے دُنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں کچھ لوگ کچھ دن تک مختلف حادثات و واقعات کے زیر اثر رہتے ہیں۔ جس گھر میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے وہاں خوشیوں کے شادیانے بجتے سنائی دیتے ہیں۔

اس خوشی میں چند دوست احباب و رشتہ دار بھی کچھ دیر کے لیے شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد بچے کے والدین کی زمہ داری شروع ہو جاتی ہے۔ اُس کے کھانے پینے ۔ سکول کھیلونے جیسے معاملات کی ساری زمہ داری والدین ہی پورا کرتے ہیں ہاں کبھی کبھار کوئی احباب گفٹ کی صورت میں کچھ عنایت کر جاتا ہے اور پھر بھول جاتا ہے۔

(جاری ہے)

زمہ داری واپس والدین پر ہی آجاتی ہے۔


اسی طرح جب کسی گھر سے کوئی فرد اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا جاتا ہے تو گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ اپنے پرائے کچھ لمحات یا زیادہ سے زیادہ کچھ دن آپ کے ساتھ اس دُکھ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اور پھر دُنیا داری میں مصروفیت کے باعث آہستہ آہستہ یہ خبر بھی قصہ پارینہ بن جاتی ہے کہ کوئی عزیز وفات پا گیا ہے۔ لیکن اصل صبر اور امتحان گزر جانے والے کے قریبی لواحقین کا ہوتا ہے۔

ان لواحقین میں ، ماں ،باپ، بہن بھائی، بیوی بچے شامل ہوتے ہیں۔ رشتے کی نوعیت سے ہر انسان گزر جانے والے کی کمی محسوس کرتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے سردیوں کی سرد صبح میں وہ مجھے اور میری بہن کو سکول چھوڑنے جایا کرتے تھے۔ میرا سکول گلبرگ میں واقع غالب مارکیٹ کے پاس تھا جبکہ بہن گلبر گ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھیں۔ بچپن تھا شائد اسی لیے مجھے سردی کم لگتی تھی۔

مگر ابا کے ہاتھ یخ بستہ ہوجاتے تھے تو میں پوچھا کرتا تھا کہ آپ کے ہاتھ اتنے تھنڈے کیوں ہوجاتے ہیں تو وہ صرف مسکراء دیا کرتے تھے۔ اگر جنرل بات کی جائے تو وہ بھی دوسرئے والدوں کی طرح اپنی اولاد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ لیکن ہر باپ اپنی اولاد کے لیے خاص ہوتا ہے۔ ہمارے والد صاحب بھی ہمارے لیے کچھ خاص ہی تھے۔ قلیل آمدنی میں اُنہوں نے جس طرح گزارا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔


ہم بچپن سے سنتے چلے آتے تھے کہ والدین بچوں کو کہا کرتے تھے کے بیٹا پڑھ لکھ کر افسر بن جانا۔ مگرہمارے والد صاحب صرف اتنا فرمایا کرتے تھے بچوں کام جو بھی کرو لیکن تعلیم ضرور حاصل کرو۔ پیدائش سے لے کر آج تک میں نے بہت سی کتب کا مطالہ کیا ہے۔ زندگی میں صبر و شکر کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھ رکھا تھا لیکن اس کی عملی تصویر والد صاحب کو پایا۔

وہ گزشتہ پانچ سال سے بستر پر تھے۔ مگر ایک دفعہ بھی اُن کے منہ سے گلا نہیں سنا۔ اُنہوں نے کبھی نہیں کہا میں بیمارہوں ہمیشہ کہتے اللہ تیرا شکر ہے تو نے جس حال میں بھی رکھا ہے۔ میں یہ بات اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ میرے والد تھے ۔ بلکہ اس کی بات کی گواہی تمام عزیز و اقارب اور دوست احباب بھی دیتے ہیں۔ جب بھی کوئی اُن سے ملاقات کے لیے آتا وہ ہمیشہ شکر کرتے ہی دیکھائی دیتے۔


آج اُنہیں گزرے آٹھ دن ہوچکے ہیں۔ قریبی لوگ اپنے اپنے گھروں کو جاچکے ہیں ، گہما گہمی کے بعداُن کے چلے جانے کا دکھ اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی بہت مشکل محسوس ہو رہی ہے۔ وہ اکثر مجھے کہا کرتے تھے گھبرا نا مت۔ میں سوچ رہا ہوں اُن جیسا صبر کہاں سے لاؤں ۔ وہ جو اتنی تکلیف میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اُن جیسا کیسے بنوں۔ بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ بھی وہ ہمت و استقامت سے کیا کرتے تھے۔

میں چاہتے ہوئے بھی اُن جیسا نہیں بن پا رہا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہو جاتا ہوں۔ اب تو کوئی حوصلہ دینے والا بھی نہیں رہا۔ جب والدہ کو دیکھتا ہوں تو آنسو آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں۔ والدہ نے والد صاحب کی خدمت میں انتہا کر دی۔ لیکن اب وہ بھی ہمت ہاری بیٹھی ہیں۔ اللہ اُنہیں بھی صبر اور صحت عطا فرمائے کہ اب وہی ایک سرمایا میرے پاس بچہ ہے۔


امی بتاتی ہیں بڑئے بیٹے کی پیدائش سے چند ماہ پہلے آپ کے ابو کو مسقط کا دو سال کا ویزہ مل۔ اُنہوں نے سوچا چلو اچھا ہیں محنت کروں گا تو کچھ بنا لوں گا۔ لیکن جیسے ہی بیٹے کی پیدائش کی خبر ملی سب چھوڑ چھاڑ واپس پاکستان پلٹ آئے۔ پھر مڑ کر دوبارہ باہر جانے کا نام نا لیا کہ اپنے ملک میں ہی محنت مزدوری کر لوں گا مگر رہوں گا بچوں کے پاس ہی۔

بچوں سے پیار کے معاملے میں وہ بہت جذباتی تھے۔ ہم تمام بھائیوں کو جو پیار اُنہوں نے دیا اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہم نے دیکھا جب ابو کی وفات ہوئی تو اُن کے پوتے پوتیوں نے بھی اُس محبت کا حق ادا کر دیا جو وہ اُن سے کیا کرتے تھے۔
لکھنے بیٹھا ہوں تو اُن کی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں۔ کیا کیا لکھوں وہ محبت جو ایک باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا کافی مشکل ہے۔

اُنہوں نے دُنیا کے ساتھ ساتھ دین کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑا جب تک تندرست رہے نماز اُن کا شعور تھی۔ وہ جوانی کے وقت کے نمازی تھے۔ شدت پسندی اُن کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ ہم بہن بھائی جب بھی اُن سے دعا کے بارئے میں کہتے۔ تو وہ دعا دینے کے بعد صرف ایک ہی بات کہا کرتے کے نماز پڑھو جب نماز پڑھو گے تو بہت سی پریشانیاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔

میں ابو کو بہت یاد کرتا ہوں۔ وہ شروع سے ہی میرے پاس رہتے تھے۔ اُن کی وجہ سے گھر میں رونق تھی۔ بچے بہت خوش تھے۔ اب سب بہت اداس اداس ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی ہم تسلیم نہیں کر پارہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ والد صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ اور زندگی میں اُن سے اگر کوئی جانے انجانے میں گناہ سرزرد ہو گیا ہو تو اُس کی معافی فرمائیں۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :