
اختلاف رائے کا اظہار۔ مگر کیسے؟
بدھ 1 جنوری 2020

ابراہیم حسین عابدی
(جاری ہے)
اس دن کے بعد سے جامعة الرشید نے معاشرہ کی ہر ضرورت محسوس کرتے ہوئے اپناسفر تیز سے تیز تر کردیا۔ اب 2020ء میں جہاں جامعة الرشید ایک طرف دینی مدرسہ ہے وہاں وہ ایک کام یاب اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی صورت بھی اختیار کرچکا ہے۔ عوام اس کی طرف کھنچتے چلے آرہے ہیں۔ دیگر مدارس اسے اپنے لیے رول ماڈل سمجھنے لگ گئے ہیں۔یہ یقینا جامعة الرشید کی بڑی کام یابی ہے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی کا لگایا ہوا پودا تناور درخت سے قدم بڑھاکر ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکا ہے۔مفتی صاحب کے شاگرد مفتی عبدالرحیم صاحب اجتہادی اقدامات کی ذریعے جہاں کام یابیاں سمیٹ رہے ہیں وہاں انھیں اپنوں اور غیروں کی طرف سے تنقید کے نشتر بھی سہنے پڑتے ہیں، جنہیں مفتی صاحب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرکے اور اس پہ غور وخوض کرکے جامعة الرشید کو مزید چمکاتے ہیں۔
گزشتہ روز چھبیس دسمبر بروز جمعرات جامعة الرشید نے اپنے فضلاء کا چار روزہ اجتماع منعقد کیا۔ جامعہ ہرسال یہ اجتماع منعقد کرتا ہے۔ جامعہ کا یہ اقدام بھی اس کے دیگر اقدامات کی طرح اجتہادی ہے۔ اس سے پہلے کسی جامعہ نے اس نوع کا اجتماع منعقد نہیں کیا۔ اس اجتماع میں جامعہ نے جہاں علماء کرام کو خطاب کے لیے مدعو کیا تھا وہاں ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کو بھی خطاب کی دعوت دی تھی۔ جنرل صاحب تشریف لائے۔ علماء وطلبہ سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد وہ خوش گوار موڈ میں مجمع کے اندر حاضرین میں گھل مل گئے۔ اس دوران ان کے کسی چاہنے والے نے ان کے ماتھے کا بوسہ لے لیا۔ اس ایشو کو لے کر سوشل میڈیا پہ وہ ہاہاکار مچی کہ الامان والحفیظ۔
آپ سمیت مجھے بھی جامعة الرشید کی بعض پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ اختلاف کا مطلب مگر یہ ہرگز نہیں کہ آپ فریق مخالف کی تذلیل پر اتر آئے۔ اختلاف، معاشرہ کا حسن ہوا کرتا ہے۔ اگر افراد کے درمیان اختلاف نہ ہوتااورسب کے رجحانات، پسند ، ناپسند، مرضی ومنشایکسا ہوتے تو یہ رنگ وآہنگ ، خوب صورتی اور جمال نہ ہوتا جومعاشروں کا خاصہ ہے۔ سب ایک ہی ادارے میں کام کرنے کا سوچتے، ایک ہی جگہ پڑھنے کی کرتے تو جہان رنگ وبو کا حسن ماند ہوتا۔ دو فریق کسی مختلف فیہ مسئلہ میں ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کو پرے پھینک کے دلائل سے مزین انتہائی شائستگی سے ایک دوسرے کی بات سن کرکسی نکتہ پر متفق ہوتو یہ اختلاف احسن کہلاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ اس اختلاف سے نا آشنا ہوتا جارہا ہے۔ کسی ایشو پر اختلاف رائے کا اظہاراس انداز سے کیا جاتا ہے کہ مخالف خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہواس کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرنا کمال سمجھا جاتا ہے۔ ہم دوسروں کو تو تمیز کے دائرہ میں رہ کر اختلاف کا درس دیتے ہیں لیکن عمل ہمارا اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمارا اختلاف بھی کالا دھواں چھوڑ کر معاشرہ میں مزید آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
ہمیں اختلاف کرنا ترکی کے شیخ محمود آفندی نقشبندی، جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمان اور جامعة الرشید کے مفتی عبد الرحیم سے سیکھنا ہوگا۔ جو اختلاف کرنے والے کی بات پوری توجہ سے سن کرپھر انتہائی شائستگی سے اپنادلائل سے مزین نکتہ نظر پیش کرتے ہیں۔ مذہبی افراد کی ذمہ داری اس باب میں دوچند ہوجاتی ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ اپنے کردار سے پیش کریں۔ اس میدان میں بھی جامعة الرشید کے فضلاء وفیض یافتگان کو قدم آگے بڑھانا ہوگا۔ معاشرہ کو اختلاف رائے پیش کرنے کا ڈھنگ سکھانا ہوگا، مسلمہ قائدین، اکابرین اور سیاست دانوں کے بارے میں اپنا لب ولہجہ احتیاط سے استعمال کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی اصلاح سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسروں کو ہی اخلاق کا بھاشن دیتے رہیں تو معاشرہ یوں ہی ہر معاملہ میں اختلاف قبیح سے مزید نفرتوں، رنجشوں اور عداوتوں سے مکدرہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ابراہیم حسین عابدی کے کالمز
-
آہ! استاذ عباسی بھی داغ مفارقت دے گئے
بدھ 16 دسمبر 2020
-
ہر سوال کا تسلی بخش جواب
جمعہ 1 مئی 2020
-
تر ی مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
پیر 6 جنوری 2020
-
سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس کا پیغام
جمعہ 3 جنوری 2020
-
اختلاف رائے کا اظہار۔ مگر کیسے؟
بدھ 1 جنوری 2020
-
مکافات عمل
ہفتہ 23 جون 2012
ابراہیم حسین عابدی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.