سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس کا پیغام

جمعہ 3 جنوری 2020

Ibrahim Hussain Abidi

ابراہیم حسین عابدی

ختم نبوت پوری امت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ اس سے سرمو انحراف کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ عقیدہ ایک سو آیات اور دو سو دس احادیث سے ثابت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی اس عقیدہ پہ ڈاکا ڈالنے والے نمودار ہوگئے تھے۔ آپ ﷺ کے دنیا سے وصال فرمانے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور کیوں نہ ہو جب خاتم النبیین علیہ الصلاة والسلام کی زبان مبارک سے پیشین گوئی ہوچکی ہے کہ میرے بعد تیس چھوٹے ہوں گے۔

ان میں سے ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا۔(حالانکہ ) میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
ختم نبوت وہ عظیم مشن جس کی خاطر بارہ سو صحابہ کرام وتابعین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جن میں ستر بدری صحابہ شامل ہیں۔ جب بھی آقائے نامدار ﷺکی ختم نبوت پر نقب زنی کی کوشش کی گئی، مسلمان اپنے اختلافات بھلاکر اس کی سرکوبی کے لیے یک جان دو قالب ہو گئے اور اسے ناکوں چنے چبواکر دم لیا۔

(جاری ہے)

1901ء میں جب مرزا غلام احمد قادیانی نے باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمانان ہند اپنے اسلاف کی تاریخ دہراتے ہوئے اس فتنہ کی سرکوبی کے خلاف سدسکندری بن گئے۔ تحریکیں چلتی رہیں۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت ہو ، 1974ء کی یا 1984ء کی، ہرتحریک میں مسلمان اس عظیم مشن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔ بالآخر سات ستمبر 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں، بزعم خویش احمدیوں کو باقاعدہ کافر قرار دیا گیا۔

تہتر کے آئین کے تحت پاکستان پینل کو ڈ کے سیکشن 298سی اور 298بی میں قادیانیوں پہ پابندیاں لگائی گئیں کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ اذان نہیں دے سکتے۔ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔ اپنے مذہب کی دعوت نہیں دے سکتے۔ قربانیوں کی طویل داستان رقم کرنے کے بعد اہلیان پاکستان نے اس قرار کی صورت میں عظیم کام یابی حاصل کی۔

قادیانی تاحال اس قرار داد کے خاتمے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔جب بھی کوئی سازش کرنے کی کوشش کرتے ہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے، ختم نبوت کے پروانے عقاب کی نگاہ ان پہ مرکوز کیے رہتے ہیں۔
راقم کی خوش قسمی ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میٹروول سائٹ کراچی نے اپنی رکنیت سے نوازا ہے۔ مولانا قاضی احسان احمد، مولانا مشتاق شاہ شیرازی، مولانا فیض ربانی، مولانا عبد الحئی مطمئن،مولاناشعیب عالم، مولانا قاسم رفیع اور مولانا محمد ارادے پہ آدھی نیکی کمانے والے انسان کو اپنے ساتھ جوڑ کر پوری نیکی کمانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں میں شعور ختم نبوت اجاگر کرنے کے لیے پروگرامات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کے لیے ہر جمعرات مرکزی دفتر ایم اے جناح روڈ جامع مسجد باب الرحمت میں پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسکول کے بچوں کے درمیان ختم نبوت کوئز پروگرام مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ وکلاء، اسکول وکالج کے ٹیچرز وغیرہ کے لیے الگ سے پروگرامات ترتیب دیے جاتے ہیں۔

اس سلسلہ کی ایک کڑی سالانہ سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس ہے۔ راقم اپنی تمام تر مصروفیات تج کر بہرصورت کانفرنس میں شرکت کو یقینی بناتا ہے۔ ہرسال پہلے سے بڑھ کر کانفرنس کام یابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ امسال بھی مومن آباعیدگاہ گراوٴنڈ عوام الناس سے کھچاکھچ بھرا ہواتھا۔ کانفرنس سے ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اللہ وسایا، معروف خطیب مولانا رفیق جامی،مولانا قاضی احسان احمد، مفتی زبیر حق نواز وغیرہ نے خطاب کیا۔


سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس نے عوام الناس کو پیغام دیا کہ ملک پاکستان پاکیزہ کلمہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پہ بنا ہے۔ یہاں دین اسلام کے خلاف ہر قسم کے عزائم کو کسی صورت پنپنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مرزا غلام احمد کے پیروکار مسلمانوں کو گم راہ کرنے کے بجائے توبہ تائب ہوکر خاتم النبیین ﷺ کے راستے کو اپنالیں۔ ہمارے دروازے ہمیشہ ان کے لیے کھلے ہیں۔

نئی حکومت بننے کے بعد قادیانی خوش تھے کہ نئے پاکستان میں ہم ایک بار پھر اپنے پر پرزے نکالیں گے لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں دین کا درد رکھنے والوں نے شہر شہر ملین مارچ کرکے ان کے سارے عزائم خاک میں ملادیے۔ پہلے ان کا بیان تھاکہ قادیان کا اگلا مرکز پاکستان ہوگا۔ ملین مارچ کے بعد اب بیان آیا ہے کہ جب تک مولوی پاکستان میں موجود ہے ہمارا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

پرویز مشرف نے بھی کہا تھا کہ میں مولویوں کو ختم کرکے رکھ دوں گا۔ اس کی سیاست ختم ہوگئی، خود بھی ختم ہونے کو ہے۔ جبکہ ملا کی اذان پہلے سے بڑھ کے بلند ہے اور تاقیامت گونجتی رہے گی۔
سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس کا آخری پیغام قادیانی مصنوعات سے بائیکاٹ کے متعلق تھا۔ مرتد اور ایسے غیر مسلم جن کا مال مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتا ہو، مفتیان کرام نے ان سے ہر قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا ہے۔

ہر قادیانی خواہ امیر ہو یا غریب اپنے مال کا دسواں حصہ قادیانیت کے لیے وقف کرتا ہے۔ شیزان جوس، اچار، مربہ جات ، یونیورسل اسٹپلائزر، ذائقہ گھی وغیرہ قادیانی مصنوعات ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی قادیانی مصنوعات استعمال کی جاتی ہے۔ پی آئی اے ائیر لائن میں شیزان کیچپ فراہم کی جاتی ہے۔ جہاں بھی قادیانی مصنوعات پائی جائیں، خرید وفروخت کرنے والوں کو پیارو محبت سے سمجھا جائے۔

قانون ہاتھ میں لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔
سیرت خاتم الانبیاء کانفرنس اپنے دور رس اثرات مرتب کرتے ہوئے کام یابی سے اختتام کو پہنچا۔حاضرین نے دامے درمے قدمے سخنے ختم نبوت کے عظیم مشن سے جڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔ رب العالمین ہمارا خاتمہ بھی خدام ختم نبوت میں فرماکر شفاعت نبی کا حق دار ٹھہرائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :