آہ! استاذ عباسی بھی داغ مفارقت دے گئے

بدھ 16 دسمبر 2020

Ibrahim Hussain Abidi

ابراہیم حسین عابدی

2020ء کا سورج غروب ہوتے ہوتے قیامت ڈھا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک علم کے آفتاب وماہتاب زمین کے حوالہ کیے جارہے ہیں۔ ایک کی جدائی کا غم مندمل نہیں ہوپاتاکہ دوسری جانکاہ خبر دل پہ چھریاں چلانے کے لیے آدھمکتی ہے۔وقت کے کبار علماء ”یقبض العلم بقبض العلماء“ کی تصدیق کرتے ہوئے تسبیح کے دانوں کی طرح کھوتے جارہے ہیں۔بیس جون کو جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم اور جامعہ نظامیہ بہاولپور کے مولانا شمس الدین انصاری، بائیس جون کو صدر دارالعلوم زکریا اسلام آباد کے پیر عزیز الرحمٰن ہزاروی،دس اکتوبر کو جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید، بارہ اکتوبر کو جامعہ بنوری ٹاوٴن گرومندراور جامعة الرشید احسن آباد کراچی کے استاذ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی ،تین دسمبر کو بنوری ٹاوٴن کے استاذمفتی عاصم ذکی ، سات دسمبر کو احسن العلوم کراچی کے مہتمم مفتی زرولی خان اور اب چودہ دسمبر کو معروف ادیب مولانا ابن الحسن عباسی بھی داغ مفارقت دے گئے۔

(جاری ہے)

سال 2020ء میں راہی ملک بقا ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ بلاشبہ 2020ء عام الحزن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
استاذ مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ گوناگوں صفات کے مالک تھے۔ عظیم مصنف، صاحب طرز ادیب، کام یاب مدرس اور شفیق مہتمم۔انہوں نے1972ء کو صوبہ خیبر پختون خواکے علاقہ تورغر کے پسماندہ گاوٴں چیرہ میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد مولانا مخدوم صاحب کو مولانا ادریس کاندھلوی سے تلمذ اور مولانا عبد الغفور عباسی مدنی سے نسبی تعلق حاصل تھا۔

ابتدائی تعلیم گاوٴں میں حاصل کرنے کے بعد کراچی کے لیے رختِ سفر باندھا۔ بارہ سال کی عمر میں کلام اللہ سینہ میں محفوظ کیا۔ 1986ء میں قاری عبد الباعث سے قرآن پاک تجوید کے ساتھ مکمل پڑھا۔ درس نظامی کا آغاز جامعہ رحمانیہ بفرزون کراچی سے کیا۔ یہاں درجہ متوسطہ پڑھ کر اولیٰ کے لیے دار العلوم کراچی میں داخلہ لیا اور اولیٰ سے دورہ حدیث تک کے تمام درجات یہی پڑھے۔

1413ھ بمطابق 2010ء میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے دورہ حدیث میں موطا امام محمد اور شمائل ترمذی کا درس دیتے تھے۔ ہم نے استاذ محترم سے درجہ خامسہ معہد میں ہدایہ ثالث اور سابعہ میں بیضاوی شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ ان کا درس بڑا بابرکت ہوتا ۔دل نشین انداز میں گھنٹوں کا سبق منٹوں میں گھول کر طلبہ کو پلاتے۔دورانِ درس طلبہ کو پوری طرح بے دار رہنا پڑتا ، کسی بھی وقت وہ درس کے متعلق سوال پوچھ سکتے تھے۔

آموختہ سبق اگلے دن سننے کا التزام فرماتے ۔یہی وجہ تھی کہ آپ کی کتاب اکثر طلبہ کو ازبر ہوتی ۔
مولانا مسعود باللہ عباسی صاحب نے بخاری شریف کی شرح کشف الباری عما فی صحیح البخاری پر ترتیب وتعلیق کاکام کیا ہے۔ آپ کے ہاتھوں کئی جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ مدرسہ تراث الاسلام کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ترجمان ماہنامہ وفاق کے سابق مدیر اعلیٰ تھے۔

آپ کے قلم میں سلاست، روانی، تسلسل، آمد، شستگی اورجو ادبی جولانی پائی جاتی ہے، وہ آپ ہی کا امتیاز ہے۔کالم بھی وہ بڑی تحقیق اور محنت کے بعد اخبار میں اشاعت کے لیے بھیجتے۔یہی وجہ تھی کہ ان کے قاری کو ادبی چاشنی کے ساتھ معلومات بھی مل جاتیں۔ اردو ادب کے سب سے بڑے محقق اور نقاد مشفق خواجہ جن کے کالم پاک و ہند میں یکساں مقبول تھے۔ ان کے ہاں ہر اتوار ادیب حضرات کی محفل لگاکرتی تھی جس میں چوٹی کے ادباء شریک ہوا کرتے تھے۔

اسی طرح کی ایک مجلس میں دیگر ادیبوں کے علاوہ عطاء الحق قاسمی بھی موجود تھے۔ مشفق خواجہ نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے کہا”اگر تم لوگ دینی مدراس کے فضلاء کے ساتھ ظلم روا نہ رکھتے تو آج مولانا ابن الحسن عباسی کا مرتبہ تمہارے ہاں بہت بلند ہوتا“۔
ان کی وفات والے دن صبح اخبارات میں خبر تلاش کرتا ہی رہ گیا۔ سوائے روزنامہ اسلام کے کسی اخبار میں ایک کالمی خبر تک نہ چھپی تھی۔

ان کی شخصیت اس کی محتاج نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا لوہا منوایا تھا۔ ان کی کتب اندرون وبیرون ملک مقبول تھیں، ان کی کئی تصانیف کے ایڈیشن ہر سال ختم ہوجاتے تھے، ان کے لکھے گئے مضامین ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شائع ہوئے۔ المیہ مگر ہمارا ہے کہ ہم نے اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا۔ہماری بے حسی دیکھیے کہ وہ شخصیت جو اپنی زندگی مسٹر اور ملا کی تفریق مٹانے کی بات کرتا تھا۔

مسٹر نے اس اردو کے ادیب کی وفات حسرت آیات پہ ایک آنسو تک نہ بہایا۔خیر چھوڑیے۔ آئیے ان کے تذکرے کی طرف پھر چلتے ہیں۔
وہ نو واردوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے۔ مجھے یاد ہے جب 2010ء میں راقم نے اپنی کتاب ”اساتذہ درس گاہ میں“ ان کی خدمت میں پیش کی،مقدمہ پڑھ کر انہوں نے کہا”تم تو اپنے بھائی حبیب حسین سے بھی اچھا لکھتے ہو“۔ من آنم کہ من دانم۔

معلوم تھا کہ وہ میری حوصلہ افزائی کے لیے یہ کہہ رہے تھے۔ لیکن ان کی باتوں سے کتنا حوصلہ ملا، وہ ضبط تحریر نہیں کیا جاسکتا۔ فیس بک پر معروف صحافی فیض اللہ خان کی کتاب ”ڈیورنڈ لائن کا قیدی“ پہ تحریر لکھی تو عباسی صاحب نے میسنجر پر کہا”آپ نے بہت خوب لکھا۔ میری طرف سے تین سو روپیہ انعام۔ کسی بھی وقت آکر لے جائیں“۔ یہ ان سے آخری رابطہ تھا۔

آہ!اب ایسا کہاں سے لاوٴں کہ تجھ سا کہیں جسے۔
2020ء کا سورج غروب ہوتے ہوتے قیامت ڈھا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک علم کے آفتاب وماہتاب زمین کے حوالہ کیے جارہے ہیں۔ ایک کی جدائی کا غم مندمل نہیں پاتاکہ دوسری جانکاہ خبر دل پہ چھریاں چلانے کے لیے آدھمکتی ہے۔وقت کے کبار علماء ”یقبض العلم بقبض العلماء“ کی تصدیق کرتے ہوئے تسبیح کے دانوں کی طرح کھوتے جارہے ہیں۔ ارحم الراحمین استاذ محترم کو جنت الفردوس اور تمام لواحقین کوصبر جمیل عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :