ہر سوال کا تسلی بخش جواب

جمعہ 1 مئی 2020

Ibrahim Hussain Abidi

ابراہیم حسین عابدی

دین عقل کا نام نہیں کہ جو میری ناقص عقل میں آیا اسے ہی میں نے ٹھیک سمجھ لیا۔دین ”نقل“ کا نام ہے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صحابہ نے نقل کیا، صحابہ سے تابعین نے، تابعین سے تبع تابعین نے،تبع تابعین سے ائمہ مجتہدین نے اور پھر ائمہ مجتہدین سے چند واسطوں سے ہم تک نقلاًپہنچا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاایک ایک قول، فعل بلکہ ادا تک من وعن ہم تک نقل ہوئی ہے۔

ہر شعبہ زندگی کے احکام وقوانین تفصیل سے علمائے ربانیین نے بیان کردیے ہیں۔ اب کوئی بھی کسی دور میں بھی چور دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرے گاتو بہ آسانی اس کی گرفت ہوگی۔
 گزشتہ دنوں نامورعالم دین،تحریک پاکستان کے رہنما اور مجاہد ختم نبوت مولانا بہاء الحق قاسمی کے پوتے جناب یاسر پیز زادہ نے یکے بعد دیگر دو کالم ذرا نہیں، دین سے پورے ہٹ کے پیش کیے۔

(جاری ہے)

وہ اگر اپنے کالموں میں اٹھائے گئے اعتراضات کا ٹھنڈے پیٹوں جائزہ لیتے یا دین کے کسی بھی طالب علم سے ان کے جوابات طلب کرتے تو یقینا ان کی تشفی ہوجاتی۔ افسوس انہوں نے اپنے دماغ پہ ذرا بھی زور نہیں ڈالا اور عجلت میں بے بنیاد اعتراضات سے کالم کا پیٹ بھر دیا۔ یوں تو فاضل کالم نگار کے دونوں کالم بے جا اعتراضات سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ہم چیدہ چیدہ اعتراضات پہ نظر ڈالیں گے۔

پہلے کالم کی ابتدا میں کالم نگار موصوف نے بزعم خویش مذہب کے بارے میں پانچ غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی۔ ہم نمبرواریہ ثابت کریں گے جنہیں وہ غلط فہمیاں کہہ رہے ہیں دراصل وہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ باتیں ہیں، جن میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
نمبر ایک یہ کہ مسلمان خواہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو، پوری عمر اس کو ثواب کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ہو، مگرروز قیامت اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایک دن بالآخروہ جنت میں دا خل ہوگا۔

آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے: جس شخص نے لا الٰہ الااللہ کہاوہ جنت میں داخل ہوگا۔
نمبر دو یہ کہ احادیث میں سینکڑوں کلمات ایسے ہیں جن کے پڑھنے کی بے انتہافضیلت بتلائی گئی ہے، جیسے لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔ ان کلمات کے بارے میں لسان مبارک سے بتلایا گیا ہے کہ جو شخص دن میں سو مرتبہ یہ کہے اس کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اس سے سو گناہ مٹادیے جاتے ہیں اور پورے دن شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔

(صحیح مسلم)
 تیسری یہ کہ دنیاوی مسائل تعویذ، ٹوٹکوں، عملیات، وظیفوں اور روحانی کشف کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں۔صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص نابالغ بچوں کے لیے دعا کاغذ پر لکھ کر گلے میں لٹکادیا کرتے تھے۔ (ترمذی)اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف مسائل کے لیے مختلف عملیات ثابت ہیں۔
نمبر چار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب کوئی مصیبت درپیش ہوتی خواہ وہ سورج گرہن کی صورت میں ہوتی یا آندھی کی صورت میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے، توبہ واستغفار کی تلقین فرماتے۔

قرآن مجید کی سورہ نوح میں استغفار کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے بتلادیاکہ اس کی برکت سے تم پر بارش برسے گی اور مال واولاد نصیب ہوگی۔
پانچویں غلط فہمی فاضل کالم نگار کو یہ ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دنیا عارضی نہیں، وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے، اس لیے آخرت کے بارے میں وہ زیادہ فکر مند نہیں، دنیا کمانے میں ہی ساری عمر اور محنت صرف کرنے پہ زور دیتے ہیں۔

ان کی یہ غلط فہمی بڑی آسانی سے دور ہوجاتی اگر وہ کسی مولوی صاحب سے قرآن وحدیث کی روشنی میں فانی دنیا پہ کچھ سننے کی فرمائش کرتے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک بیان بھی وہ غور سے سن لیتے تو انہیں دو کالم سیاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں یہ موضوع جابجا ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ سورة العنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے۔

آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔کاش وہ اس حقیقت کو جانتے۔“سورہ فاطرمیں فرماتے ہیں:”اے لو گو! بے شک اللہ کا وعدہ قیامت برحق ہے،لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔
 سورہ الحدید میں فرماتے ہیں:”جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے۔“ سورة یونس میں دنیاوی زندگی کو ہی اصل سمجھنے اور اس میں مست رہنے والے کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں، ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔

“ 
فرمان نبوی ہے: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی اپنے ساتھ لا تی ہے۔“ (صحیح مسلم: کتاب الجنہ،باب فنائالدنیا)
ایک حدیث میں آتا ہے: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے جسے کوئی باہر پھینک گیا تھا، اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا کی اتنی بھی اہمیت نہیں جتنی اس مری ہوئی بکری کی اس کے مالک کے نزدیک۔

“(جامع ترمذی، ابواب الزہد) 
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں ”ایک مرتبہ رسول اللہ نے مجھے کندھے سے پکڑا اور فرمایا: د نیا میں یوں رہو گویا پردیس میں ہو یا گویا تم بس ایک راہگیر ہو۔“(صحیح بخاری)
فاضل کالم نگار نے اصل موضوع سخن اس بات کو بنایا ہے کہ وبائیں، آفات وبلیات گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے وزیر اعظم کی موجودگی میں کورونا وائرس کو اللہ کا عذاب کہاجس پہ موصوف سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں۔

یہ مولانا نے اپنی طرف سے نہیں کہابلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد ہے:”جب بھی کسی قوم میں کھلم کھلابے حیائی ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔“ (ابن ماجہ)اب رہی یہ بات کہ اللہ والے کیوں اس بیماری میں گرفتار ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ والوں کو بطور آزمائش اس طرح کی مصیبتوں میں گرفتار کیا جاتا ہے، رفع درجات کے لیے۔

سورہ عنکبوت کی ابتدائی آیت میں ارشاد ربانی ہے: ”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر انہوں نے ’ہم ایمان لائے‘ کہہ دیا ہے تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟!“ 
فاضل کالم نگار کی ہر ہر بات کا تسلی بخش جواب موجود ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو دین کا طالب علم کہا ہے اور استاذ الاساتذہ مولانا طارق جمیل صاحب کو سبق پڑھارہے ہیں۔

اگر وہ سیکھنے کی غرض سے مولانا سے رابطہ کرلیتے تو ان کو اتنی زحمت نہ کرنا پڑتی۔ ہمیں اپنے ہر ہر قول وفعل کا حساب دینا ہوگا۔ 
حدیث میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اندھیری رات کے اندھیروں جیسے فتنوں سے قبل نیک عمل کر لو، جن میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، وہ اپنا دین دنیا کے مال و متاع کے عوض بیچ دے گا۔

“ (صحیح مسلم) ہمیں روز تجدید ایمان کرتے رہنا چاہیے، معلوم نہیں ہمارے کون سے قول یا فعل کی وجہ سے ہم ایمان سے خارج ہوجائیں اور ہمیں معلوم تک نہ ہو۔ رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیاں ہیں، اسے قیمتی بنائیں۔ کسی اللہ والے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیں، جس طرح مولانا بہاء الحق قاسمی نے مولانا احمد علی لاہوری کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تھا۔ مولانا طارق جمیل صاحب تو انتظار میں بیٹھے ہیں، آئیے ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنا ہر سوال ان سے پوچھ کر ابدی سکون پائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :