ہیلن کیلر کا درد اُور ہمارا معاشرہ

بدھ 20 مئی 2020

Imran Amin

عمران امین

مارک ٹیون نے ایک بار کہا تھا”انیسویں صدی کی دُو سب سے دلچسپ ترین شخصیات نپولین اُور ہیلن کیلر ہیں“۔اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہیلن کیلر اس صدی کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔وہ پیدائشی طور پر نارمل تھیں مگرانہیں ایک بیماری نے اس طرح پچھاڑا کہ صرف انیس ماہ کی عمر میں بہری،گونگی اُور اندھی بنا دیا۔
ہیلن کیلر بالکل نابینا تھیں مگراس کے باوجود انہوں نے اتنی کتابیں پڑھ لیں جتنی بہت سارے آنکھوں والوں نے نہ پڑھی ہوں وہبہری ہونے کے باوجود اُن لوگوں سے زیادہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتی جن کے کان بھلے چنگے تھے۔

بے شمار کتابوں کی مصنف تھیں نیز اپنی زندگی پر فلم بھی بنائی جس میں خُود اداکاری بھی کی۔ہیلن کیلراپنی معذوری کے بارے میں کہتی تھیں ”مجھے اندھا ہونے کا اتنا رنج نہیں جتنا بہری ہونے کا قلق ہے۔

(جاری ہے)

اس تاریکی اُور خاموشی میں جو دنیا اُور اُس کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہے، وہ جس چیز کے لیے سب سے زیادہ ترستی ہے وہ انسانی آواز کا ہمدردانہ لب ولہجہ ہے“۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان کتنی بھی مشکل میں ہو،جتنی بھی تکلیف سے گزر رہا ہو،بے شک ہمت جواب دے چکی ہو اُور حوصلے ٹوٹ چکے ہوں تب دُو بول محبت اُورہمدردی کے اس کو پھر سے باہمت کر دیتے ہیں اُورمنزل کو آسان بنا دیتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں ہر شخص پیار،محبت،اخلاص، بھائی چارے اُورا چھے اخلاق کا متلاشی ہے جبکہ ہر دُوسرا شخص دنیا کی جیت کا ارادہ لیے سب کو پچھاڑ کرآگے بڑھنے کی دُوڑ میں شامل نظر آتا ہے۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ مادیت پرستی کے اس دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہم نے دین کی اعلیٰ تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔دُوسری بد بختی یہ ہے کہ دین اُور ذاتی زندگی کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا۔تیسرابڑا سانحہ یہ ہوا کہ صدیوں کی غلامی نے اس علاقے کے افراد کی ذہنی بلوغت ہی نہیں ہونے دی۔فکری اُور اخلاقی تربیت ناپید تھی لہذا صرف غلام ابن غلام ہی جنم لیتے رہے اُورذہنی غلامی کی بدترین حالت میں افراد کا یہ گروہ پنپنے لگا۔

شخصی بُت پرستی کی لعنت کو اس خطے کے افراد کے جینز میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈال دیا گیا تاکہ حکمران طبقے کی بقا اُور خوشحالی برقرار رہے اُور اس عمل کا مقصود صرف غلاموں کی فوج کو تیار کرنا تھا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہمارے حکمران طبقے نے بھی ماضی کی جاری گندی روایات کو اپنے لیے فائدہ مند جانا اُور عوام کو بے سمت ہی چلنے دیا۔

آج آپ اپنے اردگرد دیکھیں ’اگرچہ’کورونا“ کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے مگر ذخیرہ اندوزی جاری ہے،موت سامنے ناچ رہی ہے مگر ادویات کی قیمت بڑھا دی گئی ہے،حکومت نے ذرائع آمدورفت محدود پر پابندی لگائی تو کرایے بڑھا دئیے گئے،بلکتے اُورسسکتے لوگوں کو امداد کے بہانے لوٹا جانے لگا۔ سوال یہ ہے کہ کہاں گئی انسانیت اُور کہاں گئے اچھے آدرش؟ کہاں گیا اسلام اُور کہاں گئیں اسلامی تعلیمات؟کیا ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے انسان اُور ان پڑھ انسان کے عمل اُور شعور میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟نہیں ہرگز نہیں،سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش میں ہیں، سب اس افراتفری میں فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

ایسے موقعہ پر جب غریب کے پاس خوشی کے لمحے بھی کم ہو گئے ہیں اُورمزدور کا گھر اناج سے محروم ہے، انسانیت کا درس دینے والے،ہر سال حج و عمرہ کرنے والے،سالانہ لاکھوں روپے زکوة دینے والے، محافل سماع کا انعقاد کروانے والے،نام نہاد مفکر اُورپڑھے لکھے افراد صرف اپنی دُکان داری چمکا رہے ہیں اُورافسوس اُن کی سوچ اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھ رہی۔

یاد رکھیں!ناموس رسالت کے خالی نعرے لگانے سے معاملہ حل نہیں ہو گا اُور نہ اللہ اُور اُس کے پاک نبی راضی ہوں گے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو اُور فرائض کی مکمل ادائیگی پردنیا اُور آخرت میں کامیابی کے دروازے کھلیں گے۔آج سب حکومتی اہل کاروں اُور اہل ثروت افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کی ضروریات کا خیال کریں۔

اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں کیونکہ اُن لوگوں میں بے شمار ایسے ہوں گے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار ایسی صورتحال دیکھی ہوگی۔”وہ سامنے آتے بھی ہوں گے اُور شرماتے بھی ہو ں گے“۔اُن کو آپ کے چند محبت بھرے بول اس احساس شرمندگی سے بچا سکتے ہیں جسکا سبب موجودہ مالی پریشان ہے۔
آئیے ہم سب عہد کریں کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں ہم رحمت خداوندی سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے اُور اپنے نبی پاک ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیراء ہو کر دکھی انسانیت کے درد کا مداوا بنیں گے۔

عید قریب ہے اُوربے شمار لوگ اپنے بچوں کی خواہشات کے آگے بے بس ہیں کیونکہ بچے تو آخر بچے ہیں۔
یاد رکھیں! ایسا موقعہ بار بار نہیں ملتا۔رحمت الہٰی جوش میں ہے اُور رب کائنات مانگنے والوں کو عطا کر رہا ہے اس رحمتوں کی لوٹ سیل سے مستفید ہوں پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔اللہ پاک ہماری مشکلات آسان فرمائے اُور تنگ دستی اُور فقر سے بچائے، آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :