اللہ کرے بہتری کے دن جلد آئیں

پیر 26 جولائی 2021

Imran Amin

عمران امین

انسانیت تڑپ رہی ہے مگر کوئی مسیحائی ہاتھ نظر نہیں آرہا۔سانسوں کی آواز بے ترتیبی انداز میں زندگی کا ساز سنا رہی ہے مگر نہ کوئی کان ادھر متوجہ ہے اور نہ کوئی آنکھ نم ہونے کو تیار ہے۔ظلم کی چیختی چنگھاڑتی  یلغار نے سسکتی اور بلکتی آہوں کو مغلوب کر رکھا ہے اور آتش نمرود میں جھلستے ابراہیمی وجودکی پکار سننے کو آج دنیا کا کوئی رب تیار نہیں۔

نہ جبرائیل پیغام لے کر آیا نہ آٓگ گل و گلزار بنی۔درد ماروں کا حال درد والا ہی جانتا ہے وگرنہ آسائشوں میں پلنے والے کہاں جانیں کہ خواہش کے پیدا ہو کر مر جانے کا غم کیا ہوتا ہے،تپتی زمین سے پاؤں پر پڑنے والے چھالوں کا زخم کیا ہوتا ہے،لڑکپن میں ہی خاندان کی بھوک مٹانے کا جتن کیا ہوتا ہے،انا کو دبانے اور خودی کو بیچنے کی سزا کیا ہوتی ہے،نوجوانی سے غموں کے پہاڑ اٹھا کر بڑھاپے میں داخل ہونا کیسا لگتا ہے،بنیادوں کے بغیر کھڑی عمارت کیا عمارت ہوتی ہے؟۔

(جاری ہے)

آج میرا نیاپاکستان اقتدار کے بھوکے پیاسے لوگوں کی جاگیر بن چکا ہے جن کی کئی نسلوں سے ڈریکولا والی خون کی پیاس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی جبکہ دوسری طرف گونگے،بہرے اور اندھے عوام اپنے بچوں کا خون کر رہے ہیں،اپنی عزتوں کا جنازہ نکال رہے ہیں، آرزؤں کی تدفین میں مصروف ہیں،قابلیتوں کو زنگ لگنے کے منتظر ہیں یایوں کہیں سانسوں کے رکنے کو بس اک اشارہ چاہیے کیونکہ مشکل اور برے حالات میں جہاں سانس کی بندش ہو وہاں زندہ رہنا بڑا عذاب ہوتا ہے۔

اس سارے ماحول کا سبب چند گروہوں کی خودفریبی ہے جو سمجھتے ہیں کہ حضرت انسان اپنی عقل و عمل سے سب کو مات دے سکتا ہے۔اب چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات بہت ضروری ہیں۔ کیا انسان اس کائنات کی واحد ”ذہین مخلوق“ہے؟۔کیا اس کائنات کے کسی گوشے میں انسان جیسی کوئی اور عقل و شعور کی حامل مخلوق بھی آباد ہے؟۔کیا علامہ اقبال کے تخیل ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ کی مانند ہمارے نظام شمسی سے باہر کوئی اور سلسلہ موت و حیات بھی موجود ہے یا اس قصّے کی ابتداء اور انتہا اس سیارہ زمین تک ہی محدود ہے؟؟۔

ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟کیا وُہ خُدا جس نے اس کائنات کو اور ہمیں تخلیق کیا،اُس نے کوئی اور جہاں بھی بسایا ہے اور وہاں انسانی مخلوقات بھی پیدا کی ہیں؟۔ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟۔اس معاشرے میں کسی کی انفرادی زندگی کی ضروریات اور تقاضے کیا ہیں اوراجتماعی زندگی کے فرائض اور طور طریقوں میں ہمارا کردار کتنا اہم ہے؟۔طبقاتی تقسیم کے باوجود معاشرے میں عدل و انصاف کیسے قائم کرنا ہے؟۔

طاقتور اور کمزور،عالم اور جاہل،صحت مند اور بیمار افراد کے حقوق کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟۔ ان دلچسپ اور گنجلک سوالات کا جواب جانے بغیر ایک مفید اور منافع بخش معاشرہ تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ان سب سوالات کا کسی نے تو جواب دینا ہے۔اگر ہم غور کریں تو ان سوالات کے جوابات صرف حکمران طبقہ ہی دینے کا مجاز ہے۔مگر افسوس پاکستان میں آج کے حکمران گروہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر تحریری معاہدے کر رکھے ہیں جس میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ اور سہولت کاری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

موجودہ وزیر اعظم کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کبھی وہ مذہب کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی وہ عورت مارچ کے شرکاء کو حکومتی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔کسی جگہ وہ اسلامی معیشت کو بہترین قرار دیتے ہیں تو کہیں سوشلزم کو کامیاب کہا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ حالیہ ارشاد میں کیمونزم کو پسندیدہ بتایا گیا ہے۔اسلامی سکالرز اور مولوی کو دقیانوسی سوچ کا مالک سمجھا جاتا ہے اور مارڈریٹ اسلام کی بات کی جاتی ہے۔

حالیہ ڈومیسٹک وائلنس کے بل پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ چونکہ پاکستان ایک ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ ہے جہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے، قانون کی حکمرانی ہے،انسانی بنیادی سہولیات کی فراوانی ہے،انسانی حقوق کی عمل داری ہے لہذا ایسی بہترین سرزمین پر رہنے والوں کو اس زبردست قانون سازی کی اشد ضرورت تھی جو ایک دیانت دار،ایمان دار اور محب وطن وزیر اعظم نے پوری کر دی جبکہ دوسری طرف عوام میں فاقہ ہے،غربت ہے،جہالت ہے،کرپشن ہے اوربد نظمی ہے۔

حکومت عوام کو صحت مند معاشرہ دینے سے محروم اورتعلیم عام کرنے سے معذور، ہے ان حالات میں حکومتی مشینری اپنے اقدامات سے عوام الناس کو مستفید کرتی نظر نہیں آرہی۔آج بھی اگر ہم غور کریں تووہی پرانے سیاسی جھگڑے، ذاتی طعنے، ہلڑ بازی،فقرہ بازی،دھینگا مشتی اور جگتیں سیاسی میدان کی رونقیں ہیں جس کا بھرپور مظاہرہ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاسوں میں عوام دیکھ چکے ہیں۔اب قوم کسی معجزے کی منتظر ہے جو تائید ایزدی سے اذن لے کر ملک و قوم کے حالات بدل دے۔اللہ کرے بہتری کے دن جلد آئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :