
چوہدری بلاول۔ قسط نمبر 1
اتوار 1 فروری 2015
اسرار احمد راجہ
آئیے اب مقصد کی بات کرتے ہیں کہ آخر کیا ضرورت پڑی کہ آزادکشمیر کے ضلع میرپور سے تعلق رکھنے والے جاٹ قبیلے کے تین تمنداروں نے لندن کے ملین مارچ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نو عمر چےئرمین کو خطاب کی دعوت دیکر اُسے بے توقیر کیا۔ بوڑھے کالم نگاروں اور نو عمر اینکروں نے بغیر سوچے سمجھے محض بغض اور کینے کی بنیاد پر بلاول بھٹو زرداری پرانڈوں ، جوتوں اور بوتلوں کی بمباری کا سار ا الزام عمران خان کے بھانجے پر لگا دیا ۔
(جاری ہے)
سوال یہ ہے کہ لندن مارچ میں کشمیر کمیٹی کے چےئرمین کیوں شریک نہ ہوئے اور بلاول بھٹو زرداری کو خطاب کی دعوت کیوں دی گئی ۔ کیا بلاول کشمیری ہیں؟ اُنکے خاندان ، قبیلے یا گوت کا کوئی تعلق کشمیر سے ہے؟ جہاں تک بھٹواور زرداری قبیلے کا تعلق ہے تواُنکی تاریخ بھی ایسی نہیں کے اُسے اچھے نام سے یاد کیا جائے۔ جنا ب زرداری کی تاریخ انتہائی تلخ ہے ۔ پاکستان کی صدارت سبھالتے ہی آپ نے فرمایا کہ پاکستان نیو کلئیر سٹرائیک میں پہل نہیں کریگا۔ موصوف سے کسی نے نہیں پوچھا کہ حضور دوسری سٹرائیک کیا ہوتی ہے۔ نیو کلئیر سٹرائیک پہلا پتھر یا دوسرا پتھر نہیں ہوتا اور نہ ہی پہلا حملہ اور جوابی حملہ ہوتا ہے۔ آخر یہ بیان ایک بھارتی چینل کو دینے کی کیا ضرورت تھی اور کس کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان دیا گیا کسی نے اس پر برا نہ منایا بلکہ بہت سے ریٹائرڈ جرنیلوں اور بڈھے صحافیوں نے اس احمقانہ بیان کو بھی فلسفے اور منطق کا رنگ دے دیا۔ مرد حر کا خطاب دینے والے مرحوم نظامی صاحب نے بھی اپنا خطاب واپس نہ لیا اور نہ ہی ایوان وقت میں اس بیان پر کوئی تنقید ہوئی کہ صدر مملکت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ بیان دیں ۔ صدر زرداری نے ہی مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چےئرمین بنایا اور پھر اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر کو چالیس سال تک منجمند کردیا جائے۔ جناب زرداری کی کشمیر پالیسی کشمیریوں کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی پالیسی تھی جسے شریف برادران نے بھی اپنالیا ۔ اسکا ایک تسلسل مولانا فضل الرحمن کو دوسری بار کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنانا اور آزادکشمیر میں ن لیگ کا قیام بھی ہے۔ شریف برادران بنیادی طور پر بیوپاری اور کاروباری لوگ ہیں ۔ سستا خریدنا اور مہنگا بیچنا کاروبار کی بنیاد ہے۔ سوسنار کی اورایک لوہار کی مثال ویسے ہی نہیں بنی ۔ سنار تولہ، ماشااوررتی کی بات کرتاہے اور لوہار منوں ، ٹنوں اور لوہے کی کانوں کے سودے کرتا ہے۔ وہ لوہار ہی کیا جو لوہے کوسونے کے بھاؤ فروخت نہ کرے۔ سنار ایک حد تک سونے میں کھوٹ ملاتا ہے جبکہ لوہار کچرے سے لوہار بنا کر فروخت کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو میاں برادران ہی نہیں بلکہ اُن کے بچگان اور خواجگان بھی اس فن کے ماہر ہیں۔
زرداری کی پالیسیاں اپنانا اور تسلسل قائم رکھنا سیاست نہیں سازش ہے مگر ٹی وی اور اخباروں میں اسکا ذکر نہیں ہوتا۔ میڈیا کا فوکس عمران ، قادری ، ملالہ ، بلاول اور گلوبٹ تک محدود ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چےئرمین برقرار رکھنا مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کے مترادف ہے اور جیالے چوہدری اور حکمران برادری اس پر متفق ہے۔
اس سے پہلے کہ لند ن مارچ کی طرف جائیں بھٹو خاندان کی کشمیر سے وابستگی کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جناب سر شاہنواز بھٹو اور پنڈت نہرو انتہائی قریبی دوست تھے اور ایک ہی دور میں برطانیہ میں زیر تعلیم بھی ر ہے۔ جناب ڈاکٹر شبیر احمد مقیم فلور یڈا نے ایک مضمون میں لکھا کہ سر شاہنواز بھٹو تقسیم سے پہلے ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم تھے۔ آپ کا تعلق سندھ کے علاقے لاڑکانہ سے تھا اور آپ ایک راجپوت گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جونا گڑھ کا نواب دور اندیش آدمی نہیں تھا اس لیے ریاست کا نظام وزیراعظم کے ہاتھ تھا۔ تقسیم کا وقت آیا تو سر شاہنواز نے کہا کہ ہم پاکستان کے لیے اور پاکستان ہمارے لیے ہے۔ ڈاکٹر شبیر لکھتے ہیں کہ اس نعرے کی بنیاد یہ تھی کہ جونا گڑھ ایک مسلم ریاست تھی۔ ڈاکٹر شبیر بھول گئے کہ جونا گڑھ ایک چھوٹی او ر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان سے بہت دور تھی۔ مان لیتے ہیں کہ نواب مہابت خان سوئم دور اندیشن نہ تھے تو اُن کے دور اندیشن وزیراعظم نے جو فیصلہ کیا اُس فیصلے سے پاکستان ،نواب خاندان اور جونا گڑھ کے عوام کو کیا فائدہ ہوا۔ 15اگست1947کے دن نواب آف جونا گڑھ نے الحاق پاکستان کی دستاویز پر دستخط کیے اوریہ فیصلہ قائداعظم کی رائے لیے بغیر کیا گیا۔ 21اگست 1947کے دن الحاق کی دستاویز قائداعظم کو پیش کی گئی تو آپ نے بغیر کسی تاثر کے اس پر دستخط کر دیے ۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم اس دستاویز کو مسترد نہیں کر سکتے تھے۔ جونہی قائداعظم نے دستاویز پر دستخط کیے سملد اس گاندھی (چیف سیکرٹری جوناگڑھ) کے حکم پر بھارتی فوج ریاست میں گھس آئی ۔ اس سے پہلے دو ہفتوں تک برٹش انڈین حکومت نے جونا گڑھ کا رابطہ باقی دنیا سے منقطع کر دیا اور ریاست کی مکمل ناکہ بندی کر دی ۔ ٹیلی فون ، پوسٹل سروس اور روڈ کیمونیکشن کاٹ دیا گیا اورلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نواب صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ الحاق پاکستان جیسی خطر ناک مہم سے باز آجائیں ورنہ کسی بھی نا گہانی صورت میں پاکستان آپ کی مدد نہیں کریگا، جبکہ ریاست کی مسلم آبادی بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دے گی۔
بھارتی افواج انگریز افسروں کی قیادت اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن گونر جنرل کے حکم پر کا ٹھیا واڑ اور جونا گڑھ میں داخل ہوئیں تو ریاستی پولیس اور فوج نے کسی مزاہمت کے بغیر ریاستی نظام انگریز افسروں کے حوالے کر دیا۔ جونا گڑھ اور کا ٹھیا واڑ کے عوام نے بھی نواب صاحب کے فیصلے پر کوئی رد عمل نہ دکھایا اور نہ ہی بھارتی فوج کی آمد پر کوئی ہنگامہ ہوا۔ نواب صاحب کسمپرسی کی حالت میں کراچی آئے تو بھارتی سٹیٹ یونین نے کراچی کے بینکوں میں جمع نواب صاحب کے ایک کروڑ کے کھاتے منجمند کر دیے۔ جونا گڑھ ہندوستان کی خوشحال ترین ریاست تھی اور نواب کا خزانہ کسی طور سو کروڑ مالیت کے جواہرات سے خالی نہ تھا۔ نواب صاحب جان بچا کر کراچی آنے سے پہلے انتہائی دردناک تحریر چھوڑ کر چلے ۔ نواب نے اپنے دستخطوں سے آخری شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے لکھاکہ ہمارے آباواجداد کی قبروں ، مقبروں اور یاد گاروں سمیت تعمیرات کو مسمار نہ کیا جائے، مذہبی مقامات کا تقدس بحال رہے اور عوام پر کسی قسم کا ظلم نہ ڈھایا جائے۔
نواب آف جونا گڑھ خالی ہاتھ اورتن پر لگے کپڑے لیکر کراچی آئے تو کسی نے حال تک نہ پوچھا۔ دانشور اور دانشمند وزیراعظم کی جاگیر کے متعلق خود اُن کی پوتی محترمہ بینظیر بھٹو اپنی کتاب دختر مشرق میں لکھتی ہیں جیکب آباد سے ٹرین چلی تو انگریز نے اپنے ماتحت سے پوچھا کہ یہ زمین کس کی ہے۔ ماتحت نے جواب دیا کہ بھٹو کی زمین ہے ۔ کئی ریلوے اسٹیشن گزر گئے تو افسر نے پھر پوچھا کہ زمین کسی کی ہے۔ ماتحت نے کہا بھٹو کی ہے۔ انگریز افسر نے سونے کے لیے انکھیں بند کیں اور ماتحت کو حکم دیا کہ جب بھٹو کی جاگیر ختم ہو جائے تو مجھے جگا دینا ۔ انگریز افسر سو کراُٹھا اور ایک پھر پوچھا اب زمین کس کی ہے۔ تو ماتحت نے پھر کہا زمین بھٹو کی ہے۔
بھٹو کی جاگیر بہت سی ہندوستانی ریاستوں سے بڑی تھی مگر نواب آف جونا گڑھ کے لیے اُن کی ریاست کے وزیراعظم نے کچھ نہ کیا۔ ہندوستان کی خوشحال ترین اور امیر ترین ریاست کا خزانہ کہاں گیا یہ بھی کسی کو معلوم نہ ہوا ۔ نواب بے یارو مدد گار کراچی آیا مگر وزیراعظم کی کہانی الحاق پاکستان کی دستاویز پر دستخطوں کے بعد ختم ہوگی۔ سر شاہنواز بھٹو1947ء کے بعد سندھ کی سیاست میں سرگرم ہوئے اور نواب آف جونا گڑھ تاریخ کے تاریک گوشے میں گم ہوگئے۔
قبضے کے بعد جونا گڑھ اور کا ٹھیا واڑ کے عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے اور ترقی و خوشحالی کے سارے ذرائع ہندو تاجروں کے ہاتھوں بک گئے۔ یونین منسٹر سردار پٹیل نے ریاست کا دورہ کیا اور مہاراجہ پٹیالہ کے ہمراہ انڈین پریس سے غیر رسمی بات چیت کے دوران دبے الفاظ میں ساری سازش کی کہانی بیان کردی ۔ نہرو ، کانگریس ، لارڈ مائنٹ بیٹن اور انڈین پریس کی مشترکہ کاوش نے جونا گڑھ اور کا ٹھیاو اڑ پر قبضے کے بعد مہاراجہ کشمیر کو واضح پیغام دیا کہ وہ بھی خودمختار کشمیر کا خیا ل دل سے نکال دے۔
جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بعد پاکستان میں کوئی ہلچل نہ ہوئی اور نہ ہی کسی اہم سیاسی اور حکومتی شخصیت نے نواب کا حال پوچھا ۔ قانوناً ریاست کا الحاق پاکستان سے ہو چکا تھااور حکومت وقت کو چاہیے تھا کہ وہ فوراً اس مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھاتی اور یواین او کے دروازے پر دستک دیتی۔ وزارت داخلہ خاص کر وزرات خارجہ اور دفاع نے کئی ہفتوں تک قائداعظم کو اس ساری کہانی سے بیخبر رکھا اور وزیرخارجہ سر ظفراللہ نے خاموشی اختیار کی۔ سر شاہنواز بھٹو کا کردار بھی منظر سے ہٹ گیا اور بعد میں جوکچھ کشمیر میں ہوا سرشاہنواز نے اس پر بھی کوئی رد عمل نہ دکھایا ۔ سر شاہنواز بھٹو کے الحاق جونا گڑھ نے بھارت کی بہت سی مشکلیں آسان کر دیں ۔ اُمید ہے کہ چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں لکھی جانیوالی تاریخ کشمیر میں ایک باب بھٹو خاندا ن کی کشمیر سے وابستگی کے حوالے سے بھی لکھا جائیگا۔ (جاری)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اسرار احمد راجہ کے کالمز
-
کینہ پروری کا دور
منگل 15 فروری 2022
-
قوم کو مبارک ہو
جمعرات 3 فروری 2022
-
سیالکوٹ کے مومن
منگل 4 جنوری 2022
-
زندہ رہنا ہے تو ڈر کر رہو
بدھ 8 دسمبر 2021
-
اقتدار کی خاموشیاں
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
آتش فشاں کے دھانے پر
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
''سلیتے میں میخ نہ رکھیو''
منگل 21 ستمبر 2021
-
پاکستان میں غداری کے سرٹیفکیٹ
پیر 18 مئی 2020
اسرار احمد راجہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.