شیرِ کشمیر بنام شیرِ پاکستان ۔ قسط نمبر2

منگل 21 نومبر 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

سنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے تاریخ میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر رکھی ہے مگر اُن کی تاریخ دانی ان کی اُردو کی طرح کمزور لگتی ہے ۔ تاریخ اور سیاسیات کا گہر اتعلق ہے۔ ابنِ رشد ، ابنِ خلدون اور اما م غزالی تاریخ اور سیاسیات کے ایسے روشن مینار ہیں جن کی روشنی سے مشرق و مغرب یکساں فیض یاب ہو رہے ہیں۔ افلاطون ، ارسطو اور دیو جانسن سے لیکر مارکس تک کوئی مذہبی فلاسفر ، تاریخ دان اور ماہر عمرانیات ان ہستیوں کی سوچ و فکر کا مقابلہ نہیں کر سکی۔

یہ اہل مغرب ہی ہیں جنہوں نے ابن خلدون کو عمرانیات کا بابا آدم کہا اوران کے نظریات و افکار کو اپنا کر جدید فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا۔ کچھ عرصہ قبل روزنامہ نوائے وقت میں چترال سے تعلق رکھنے والی تقدیر ہ خان نامی خاتون نے اختلافی نوٹ کے عنوان سے ایک کالم اور بلاول بھٹو زرداری کو لکھی ہوئی تقریرین پڑھنے کے بجائے اپنی ماں کی تقلید کرنے کا مشورہ دیا۔

(جاری ہے)

تقدیرہ خان نے اپنے مضمون میں بابر اعوان کی کتاب اختلافی نوٹ اور مرحومہ کلثوم سیف اللہ کی خود نوشت میری تنہا پرواز کا ذکر کرتے ہوئے بلاول کو ان کتب کے مطالعے کا مشورہ دیا ۔ بابر اعوان نے کتاب میں لکھا ہے کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو بابر اعوان کے علم وآگاہی سے بے حد متاثر تھی۔ ایک موقع پر بے نظیر نے بابر اعوان سے کہا کہ آپ اپنی ماں کے فرنبردار بیٹے ہو ۔

میں دعا کرتی ہوں کہ میرا بلاول بھی ایسا ہی فرما نبردار ، باادب اور علم کی دولت سے مالا ما ل ہو۔ مرحومہ کلثوم سیف اللہ نے بے نظیر بھٹو سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب میں وزیراعظم کے دفتر پہنچی تو دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن محترمہ وزیر اعظم کے سامنے بیٹھا ہے میں واپس جانے لگی تو ویزراعظم نے کہا آنٹی آپ آجائیں یہ مولانا فضل الرحمن ہیں اور آپ ہی کے علاقہ سے تعلق ہے۔

میں فضل الرحمن کے قریب بیٹھ گئی اور محترمہ اپنا کام کرتی رہیں۔ میں نے فضل الرحمن کے چہر ے پر چھائی مسکراہٹ اور بیٹھنے کے انداز کو محسوس کیا چونکہ اس کی آنکھیں مسلسل وزیراعظم کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ میں نے پشتو میں فضل الرحمن کو اس حرکت پر ڈانٹا اور باادب رہنے کا مشورہ دیا تو مولانا نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ آخر میں بھی مرد ہوں ۔

تقدیرہ خان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلاول کی ماں راجپوت اور باپ بلوچ ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا راجپوت خون ہی تھا جو اپنے مخالفین کو معاف نہیں کرتا تھا ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ماں کا فرمانبردار بیٹا بابر اعوان آج بلاول اور زرداری سے دور ہوگیا اور فضل الرحمن جیسا مرد بلاول اور مرد ِحرُ کے قریب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چوہدری غلام عباس ہی تحریک آزادی کشمیر کے واحد محرک اور راہنما تھے ۔

آپ نے غربت میں رہ کر کشمیری غریبوں اور غلاموں کی عزت نفس حقوق اور غلامی سے نجات کی تحریک چلائی جس کے صلے میں آج کشمیر کا ایک حصہ آزاد ہے۔ شروع سے ہی شیخ عبداللہ نے غدّارانہ چالیں چل کر آپ کے مشن کو ناکام کرنے کی کوشش کی جس کا ذکر پہلے مضمون میں آچکا ہے۔ چوہدری غلام عباس مرحوم اپنی سوانح حیات کشمکش میں لکھتے ہیں کہ قوموں کی راہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے قائد منتخب کیے جاتے ہیں ۔

جو قومیں خدائی احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی روگردانی کرتی ہیں اور قائد کی پر کھ نہیں کرتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتیں ۔دیکھا جائے تو آج پاکستانی قوم کا یہی المیہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو قائد تسلیم کرتی ہیں جن کا مشن لوٹ مار، دھوکہ دہی، کرپشن اور بد دیانتی ہے۔
شاید بلاول کو یاد نہ ہو اور مریم نواز اسے یاد کرنے سے انکاری ہوں مگر یہ سچ ہے کہ جنرل مشرف کے ٹیک اوور سے کچھ دن پہلے محترمہ بے نظیر کا ایک طویل بیان انگریزی اخبار” دی نیو ز“ میں شائع ہوا تھا۔

محترمہ نے اس بیان میں شریف خاندان کا موازنہ فارشسٹ نظریات کے حامل حکمرانوں اور خود غرض لیڈروں سے کیا جن کی پالیسیاں ذاتی مفادات کے تحفظ اور عوام دشمنی پر مبنی تھیں۔ ہیڈ لائین میں لکھا تھا۔ "The hoodlums of Gawal Mandi۔ محترمہ اب اس دنیا میں نہیں، ماں کا فرما نبردار بیٹا بابر اعوان پیپلز پارٹی چھوڑ چکا ہے، زردار ی اور فضل الرحمن میں گہری دوستی ہے ۔

زرداری اور الطاف حسین شریف براداران کے ہمنوا ہیں ، مریم نواز کی ٹیم عدلیہ اور فوج پر حملہ آور ہے جنہیں اعتزاز احسن جیسے قانون دان اور محترمہ بے نظیر کے ساتھی کی مکمل تائیدحاصل ہے ۔وہ اس بات پر خوش ہیں کہ مریم نواز فوج اور عدلیہ کی تذلیل جارحانہ طریقے سے کر رہی ہے ۔ جسکی وجہ سے مسلم لیگ نواز ڈرائنگ روم کی سیاست سے نکل کر عملی سیاست میں آگئی ہے ۔

ظاہر ہے کہ یہ بیان اعتزاز احسن کا نہیں بلکہ زرداری صاحب کے الفاظ ہیں جن کی ادائیگی اعتزاز احسن نے کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک نامور قانون دان کو زیب دیتا ہے کہ وہ ایسی عورت کی تعریف کرے جو عدلیہ اور ملک کی محافظ فوج پر کیچڑ اچھالے اور الزامات لگائے ۔چونکہ فوج نے اس کے باپ اور بھائیوں کی کھربوں کی چوری اور کرپشن میں خاموشی اختیار کی اور عدلیہ نے ملک کی سترسالہ تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے شخص کو سزا کا حقدار ٹھہرایا جو بائیس کروڑ غریبوں کی جیب خالی کر کے دولت بیرون ملک لے گیا اور پھر پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا گیا ؟یہی اعتراز احسن ہے جو چند ماہ پہلے ایک ایسے ایس پی کی مثال دیتا تھا جس کے کم عمر طالب علم بیٹوں نے ڈیفنس لاہور میں پلاٹ خرید رکھے ہوں ۔

آج وہ ہی قانون دان ایک ایسے شخص کی بیٹی کی تعریف کر رہا ہے جو سارا ملک کنگال کر گیا ہے اور ملکی سلامتی اور قومی وقار کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔
آج گوالمنڈی کا شیر سارے پاکستان پر دھاڑ رہا ہے اور ساری قوم کو زخمی کر رکھا ہے۔مگر پھر بھی یہ قوم اس شیر کی درندگی کی تعریفیں کرنے پر مجبور ہے۔ دختر مشرق کا مقلداور ماہر قانون دان، درندگی کو سیاست اور ا نسانیت کو بقا کہہ کر انسانیت کی تذلیل کر رہا ہے۔

دختر گوالمنڈی فوج اور عدلیہ سے جنگ کا آغاز کر چکی ہے اورفوج خاموش ہے ۔ عوام بے حس ہیں اور عدلیہ نے کسی حدتک پسپائی کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو خطرہ ہے کہ قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور عدلیہ کا وجود ہی مٹ جائے گا۔ فوج خاموش تماشائی بن کر بے حقیقت ہو جائے گی اور میثاق جمہوریت کی آڑ میں کرپٹ مافیا ملک کا وارث بن کر اسکا وجود ہی مٹا دے گا۔

گریٹر بلوچستان ، سندھودیش ، جناح پور ، آزاد پختونستان ، بلورستان اور یاغستان کی رائیں پہلے ہی اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہموار کر دی گئی ہیں ۔ شیرِ کشمیر کے فکری ، سیاسی اور روحانی اُستادوں خان عبدالغفار خان ، عبدالصمد خان اچکزئی ، مولانا آزاد ، جماعت احمدیہ ، جمعیت علمائے ہند اور اکابرین دیوبند کے وارثین آج شیرِ پاکستان کی اُس ٹیم کا ہروال دستہ ہیں جواہل پاکستان ، نظریہ پاکستان ، افواج پاکستان ، ختم نبوت ﷺ، اسلام اور حال ہی میں کسی حد تک آزاد ہوئی عدلیہ پر اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کی مدد سے حملہ آور ہیں۔

ابنِ خدون کے نظریات کا واحدمخالف پاکستانی دانشور نصر ت جاوید اکثر اپنے کالموں میں ابنِ خلدون کا مذاق اڑاتا ہے اور لکھتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ایک ہی دانشور دیا ہے جس کا نظریہ ہے عصبیت ۔ عصبیت کیا ہے اور ابنِ خلدون نے اسے کن معنوں میں بیان کیا ہے اس پر میکاولی کا مقلد کچھ نہیں لکھتا ۔ اپنے حالیہ کالم میں اپنے آپ کو د و ٹکے کا صحافی کہنے والے ا س دانشور نے بلاول بھٹوزرداری سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔

مگر بلاول کو یہ نہیں بتایا ہوگا کہ دو ٹکے کا صحافی کی اصطلاح بھی شہید محترمہ ہی سے منسوب ہے جو آج کی دو نمبری ، کرپٹ اور ملک دشمن صحافت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہڈ لمز آف گوالمنڈی کی اصطلاح بھی ایک حقیقت ہے جس سے دانشور نصر ت جاوید ، مجیب الرحمن شامی ، جاوید چوہدری ، قانون دان اعتزاز احسن کے سوا ہر شخص واقف ہے۔ سرینگر اور گوالمنڈی کے شیروں کی سیاست ، عصبیت ، ہوس و حرص میں یکسانیت ہے۔

جن کشمیریوں نے شیرِکشمیر کی حمایت کی وہ1947ءء سے لیکر آج تک دس لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں ۔ اہل پاکستان نے اگر شیرِ گوالمنڈی کی دم نہ چھوڑی تو انکا حشر کشمیریوں سے بھی بد تر ہوگا۔ ابنِ خلدون اور میکاولی کے نظریات میں بھی یہی فرق ہے۔ ابنِ خلدون کہتا ہے کہ قائد کو عام انسانوں کی طرح ہونا چاہئے ۔ اقبال  نے اسی فلسفہ کو آگے بڑھایا اور ایک لیڈر کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا
نگاہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کا راوان کے لیے
میکاولی کہتا ہے کہ لیڈر یا حکمران کو لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہئے اور وہ عوام کی پرواہ نہ کرے اوراپنے مفاد پر نظر رکھے ۔

عوام غرض مند اور بیو قوف ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس کو وسیع تر سیاسی اور جمہوری مفاد اور اعتزاز احسن جارحانہ سیاست کہتے ہیں۔
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :