
آزادی مارچ سے سول نافرمانی تک
منگل 19 اگست 2014

جاہد احمد
کچھ عرصہ قبل لکھے ہوئے الفاظ دہرانے پر مجبور ہوں کہ خدا تعالی خان صاحب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے کہ ابھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو مکمل بروئے کار لاتے ہوئے بہت انتشار اور انارکی پیدا کر نی ہے!!! جو کچھ یہ اب تک کرتے رہے وہ اپنی جگہ لیکن سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے انہوں نے باقاعدہ ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی معاملہ فہمی اور دور اندیشی سے حضرت بلاشبہ بے بہرہ ہیں!وفاق اور صوبوں کے درمیاں پیچیدہ مالی معاملات اپنی جگہ پر کیا خان صاحب اور ان کے رتن اتنا بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کل محصولات کا قریباٌ75% بلا واسطہ محصولات کے زمرے میں اکھٹا کیا جاتا ہے جس کی ایک مثال سیلز ٹیکس ہے۔
(جاری ہے)
اس حقیقت کو مان لیا جائے تو تحریکِ انصاف کے لئے فیصلہ سازی کا عمل کسی قدر آسان ہو جائے گا کہ 12 اگست 2014 رات 8 بجے کے بعد سے حکومت نے اپنی تمام غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے درست فیصلے لینے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ چیئرمین صاحب کے پاس اپنا سیاسی قد کاٹھ اونچا کرنے کا سنہری موقع موجود تھاکہ سپریم کورٹ کے کمیشن کے قیام کے فیصلے کو اپنی جیت قرار دیتے ہوئے آزادی مارچ کو منسوخ کر دینے کا فیصلہ لیتے لیکن شاید ان کا مسئلہ کچھ اور ہی تھا جبکہ سیاسی طور پر پٹ چکے برجوں نے انقلابیوں کے غبارے میں ہوا کچھ زیادہ ہی بھر دی تھی۔سیاست زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے اور صحیح وقت پر سیاسی نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ اب سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے اس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع رکھنا یوں ہی ہے جیسے سپریم کورٹ کے کمیشن کی تجویز کو رد کر کے منتخب وزیرِ اعظم سے ہر صورت پر امن احتجاج کے ذریعے استعفی لینے کا مطالبہ کرنا پھرنا مرادی حصہ میں آنے کے بعدغیر جمہوری اورپر تشدد رویے اختیار کرلینا ! سول نافرمانی کی تحریک میں عوام الناس کا بڑی تعدادا میں بلواسطہ تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے امکانات حد درجہ معدوم ہیں تو ایسی صورتحال میں ایک اور ناکامی سے دوچار ہونے کے خدشہ کے پیش نظر صوبائی حکومتوں و اداروں کے مابین تعلقات خراب کرنا اور عوام کو بلا واسطہ اس سول نافرمانی میں شامل کر لینے کی کوشش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ دوسری طرف یقینا یہ بات بھی حقیقی آزادی کی قیادت کو سمجھ آ چکی ہے کہ پر امن دھرنوں سے بنیادی طور پر غیر جمہوری مطالبات نہ تسلیم ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ عوامی سطح پر پذیرائی میسر آئی ہے تو تصادم اور انارکی پیدا کر کے مطالبات میں شدت پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے!
تحریکِ انصاف کے انتخابی عمل سے جڑے بنیادی مطالبات 33 کمیٹی کے قیام اور سپریم کورٹ کے کمیشن کی تشکیل کی تجویز کے ساتھ ہی مانے جا چکے تھے لیکن حقیقی آزادی کے لبادے میں ڈھکا چھپا حقیقی ایجنڈا اسلام آباد میں عمران خان کی تقاریر میں اپنے آپ کو وزیر اعظم عمران خان پکارنے کے بعد عیاں ہو چکا۔ تحریکِ انصاف اس آزادی مارچ میں اب تک اخلاقی طور پر بہت کچھ ہار چکی ہے ! اب کچھ حاصل کرنے چکر میں عوام، اداروں اور صوبوں کے مابین تصادم کی صورتحال پیدا کرنا مناسب اقدام نہیں۔ حکومت جو مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے اسی کو عافیت جان کر گلے میں پھنسی اس ہڈی سے جان چھڑا کر اپنے انتخابی عمل سے متعلق جائز مطالبات منوائیں اور گھروں کی راہ لیں۔ خیبر پختونخوا کی عوام مسائل میں گھری حکومت کی راہ تک رہی ہے! ان کا خیال کیجئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
جاہد احمد کے کالمز
-
روم جل رہا ہے
جمعرات 24 اکتوبر 2019
-
ایسا کیوں نہ ہوتا
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
پپو جونیئر کا پاکستان
جمعرات 18 جولائی 2019
-
یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں
ہفتہ 22 جون 2019
-
گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان
بدھ 22 مئی 2019
-
سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو
جمعرات 10 اگست 2017
-
پاکستانیت کیا ہے
اتوار 1 جنوری 2017
-
بھلے پکوڑیوں سے آگے
اتوار 5 جون 2016
جاہد احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.