رسم جہیز کے دلخراش پہلو

منگل 21 جولائی 2020

Javed Ali

جاوید علی

بنی نوع انسان کی  پہچان مخصوص علاقہ, رنگ, ذات, نسل اور رسم و رواج کی بنیاد پر ہوتی ہے اسے ہم کلچر کا نام دیتے ہیں- ہر معاشرے کی پہچان اسکی تہذیب ہوتی ہے جس کی بنیاد پر معاشروں کی تقسیم ہوتی ہے مثلا مشرقی تہذیب, مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب- دنیا کی ہر تہذیب میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں- کچھ خامیاں ایسی بھی ہوتی ہیں ان کو مٹانا بہت مشکل ہوتا ہےبعد اوقات ان رسموں کے خلاف آواز اٹھانے والے کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے کیونکہ ان کے خلاف معاشرے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے- یہ رسم و رواج تو کسی کتاب کی شکل موجود نہیں ہوتے لیکن قانون سے کئی ہزار گنا سخت ہوتے ہیں- جن میں تبدیلی کے لئے کئی برس لگ جاتے ہیں آج میں اپنے معاشرے کی ایک رسم پر بات کرنے لگا ہوں جس کو ہم میں سے اکثر چاہتے ہیں ختم ہو جائے لیکن کوئی ختم نہیں کر رہا- وہ ہے رسم جہیز جس نے ہماری زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں-
بیٹی کا پیدا ہونا تو خوشی کی بات ہے حضور نبی کریم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اور پھر ان کی شادی کر دی تو آپ نے شہادت اور ساتھ والی انگلی کا اشارہ کیا کہ وہ جنت میں میرے ساتھ ان دو انگلیوں کی طرح ہو گا لیکن ہمارے معاشرے میں بیٹی پیدا ہوتے ہی والدین کو اس کے لئے جہیز کی فکر لا حق ہو جاتی ہے- اگر ان کی معاشی حالت سازگار ہو تو پھر تو ٹھیک لیکن اگر عام عادمی ہو تو پھر وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں زندگی بسر کرتا ہے- ایک آدمی جو مزدوری کر کے اپنی زندگی گزار رہا ہوتا ہے وہ کہاں سے لائے جہیز اور وہ کہاں جاۓ- اس کے پاس تو کوئی وسائل نہیں ہے جس سے وہ جہیز خرید سکے تو وہ دن رات محنت کرتا ہے اوور ٹائم لگاتا ہے جس کی وجہ سے  اسکی صحت بگڑ جاتی ہے لیکن پھر بھی معیاری جہیز نہیں بنا سکتا- اس کے جہیز بناتے بناتے اسکی بیٹی کے چہرے پر بڑھاپے کے آثار نمودار ہونے شروع ہوجاتے ہیں- جہیز کے بغیر کوئی بیٹی کا رشتہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا خواہ وہ قریبی رشتہ دار ہو یا کوئی اور- اگر کوئی رشتہ قبول کر لے بھی تو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بعد اوقات نوبت طلاق تک چلی جاتی ہے- اگر ایسا نہ ہو ساری زندگی ساس کے طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں کہ تو لائی کیا میکے گھر سے وغیرہ وغیرہ-
اس رسم کے ذمہ دار ایلیٹ کلاس ہے جنہوں نے اس رسم کا آغاز کیا- جب امیر آدمی اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے تو گاؤں کی عورتوں کو جہیز دیکھانے کے لئے بلایا جاتا ہے جہیز کو دیکھنے کے لئے سبھی عورتیں آتی ہیں جب غریب باپ کی بیٹی وہ جہیز دیکھتی ہے تو خون کے آنسو روتی رہتی ہے ہم لوگ اپنی تعریف سننے کے لئے یہ سب کام کرتے ہیں- یہ لوگ جو اتنا جہیز دیتے ہیں کہ دو کمرے جہیز کے سامان سے بھر جاتے ہیں ان میں سے ایک یا دو فیصد بیٹیوں کو جائیداد میں سے حصہ دیتے ہیں  بعد اوقات جائیداد پر قابض ہونے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے- ہو سکتا ہے کہ جہیز کے سامان میں سے کوئی چیز استعمال بھی نہ ہو اور ان کی بیٹیاں ساری زندگی کوئی چیز استعمال بھی نہ کرے- میرے بھائی کی شادی 2010 میں ہوئی آج تک پلیٹوں اور چمچوں کے علاوہ کوئی چیز استعمال نہیں ہوئی-
اگر ہم ان فضول رسموں سے جان چھڑوا لیں تو کسی کی بیٹی کے ہاتھ مہندی سجنے سے خالی نہ رہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق غیر شادی شدہ جوان لڑکیوں میں سے نوے فیصد سے زیادہ لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتی- ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس رسم سے جان چھڑوانی ہے تاکہ کسی کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے باپ کی دہلیز پر ہی زندگی گزار دے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :