سوشل میڈیا کے رنگ اور ہم

جمعہ 10 ستمبر 2021

Javed Ali

جاوید علی

ہماری زندگی میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اس لئے اسے خاندان کا چوتھا ممبر شمار کیا جاتا ہے یہ ہمیں معلومات اور تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مختلف تہذیب سے روشناس کرواتا ہے اور اپنے کلچر کو پروموٹ کرتا ہے بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اپنا کام بخوبی انجام نہیں دے پا رہا۔ یہ ہمارے کلچر کو پس پردہ ڈال کر کسی اور تہذیب کا پرچار کر رہا ہے جس سے ہمارا دور تک کوئی واسطہ نہیں۔

یہ سب  کسی حد تک تو کنٹرول ہے لیکن سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم ہے جو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہے کہ جو ذہنی طور پر ابھی اتنا پختہ نہیں ہیں کہ وہ اسے صحیح استعمال کر سکیں۔
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ہمیں انٹرٹین کرنے کے ساتھ ساتھ تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کرتا ہے جسے مین سٹریم میڈیا پر ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا۔

(جاری ہے)

آپ یہاں حقیقت سے پردہ اٹھا سکتے ہیں بہت سے ایسے کریمنل کیسز ہیں جن کے سوشل میڈیا پر رپورٹ ہونے کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور ان کا سدّباب کیا گیا۔ ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو تو تالے لگا دیئے گئے ہیں لیکن اس صورت حال میں اساتذہ کرام نے اسی پلیٹ فارم پر اپنے لیکچرز شیئر کر رہے ہیں جو طالبعلموں کے ساتھ ساتھ جو لوگ مستفید ہونا چاہتے ہیں ان تک پہنچ رہے ہیں اور وہ مستفید ہو رہے ہیں۔

یہاں پر بہت سی ایسی پوسٹ بھی شائع ہوتی ہیں جو اخلاقی اقدار کو فروغ دیتی ہیں لیکن سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ تر سود مند ثابت نہیں ہو رہا جس کی وجہ ہم خود ہیں۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی کثیر تعداد تو  وہ  ہے جو اس کا صحیح استعمال نہیں جانتی اور وہ سوئے جاگتے ہر وقت اسی سے چپکے رہتے ہیں بغیر کسی وجہ سے۔ جن کا کام صرف تصویر شئیر کرنا اور کمنٹس اور لائیکس کو گنتے رہنے۔

بہت سے اپنے آپ کو سٹار سمجھنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ وہ ان کی اصلیت کیا ہے کہ ان کو حقیقت میں بھی کوئی پسند کرتا ہے یا ان کے ساتھ رہنے والے بھی ان سے تنگ ہیں. یہاں پر ہمیں کوئی نہیں جانتا ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں کون جانتا ہے؟ کیا جانتا ہے؟ ہمارے اخلاق سے کتنے لوگ متاثر ہیں؟ حقیقت میں ہم سے کتنے لوگ محبت کرتے ہیں؟ ہماری بہت سے بہن، بھائی بھی اسی غلط فہمی میں اپنی زندگیاں خراب کر بیٹھے اور کر رہے ہیں.
یہاں پر جس کو چاہیں بدنام کردیں جس کی مرضی عزت اچھال دیں بغیر کسی وجہ سے۔

حالانکہ ہمارے پاس کوئی قابل قبول ثبوت بھی نہیں ہوتا بس یہی فلاں نے یہ شئیر کیا ہوا تھا میں نے تو صرف فارورڈ کیا، میں نے تو اور کچھ بھی نہیں کیا۔ ہمیں یہ بات سوچنے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی عزت پامال کی جا رہی ہے اس پر کیا بیتے گی کیونکہ یہاں تو جنگل میں آگ کی طرح خبر پھیل جاتی ہے اور انسان اپنا منہ چھپے چھپا نہیں سکتا۔
  میڈیا پر ایک تو بچت ہو جاتی ہے کہ ہم اکیلے نہیں دیکھ رہے ہوتے عمومآ سبھی کے سامنے دیکھتے ہیں جو کچھ دیکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا تو پاکٹ میڈیا ہے جو ایک چھوٹی سی ڈیوائس پر دستیاب ہے جب چاہیں، جیسے چاہیں استعمال کریں یہاں ہمیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔

کثرت سے ہمیں ایسا مواد دیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے جو غیر اخلاقی، نسل پرستی، فرقہ واریت اور سیاسی انتہا پسندی وغیرہ پر مبنی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہم خود کو نیک اور اچھا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں مثلاً ایک جملہ بڑا عام ہے کہ "ماں کی عظمت کو سلام" وغیرہ ایسے بہت سے ایسے فقرے لکھتے ہیں جن کا ہم عملی نمونہ پیش نہیں کرتے۔   دوستو! اگر ہم اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنا چاہتے ہیں تو ماں کی عظمت کو سلام پیش کرنے کی بجائے ماں کو سلام کرنا اور اس کی خدمت کرنا شروع کریں۔

کہیں ایسا نہ ہوکہ ماں ہماری ذلیل و رسوا ہو رہی ہو اور ہم سوشل میڈیا پر ماں کی عظمت کو سلام پیش کرتے رہیں۔ جنت جس کےلئے ہم نماز، روزہ سب کچھ کرتے ہیں اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ وہ بھی ماں کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے۔
سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے ہم اپنے معاشرہ سے نا صرف بلکہ اپنے خاندان سے بھی کٹ چکے ہیں مماں کو خبر نہیں میرا بیٹا/ بیٹی کس حال میں ہے اور بیٹے کو نہیں معلوم ماں کس حال میں ہے بس دونوں لائیو جا رہے ہیں۔

  ہمیں نہیں پتہ ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے حتیٰ کہ جن پر اس کا بھوت سوار ہوتا ہے وہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کا بڑا قیمتی وقت اسی پر ضائع کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا اندازہ ابھی نہیں۔ ہمیں تبھی سمجھ آئے گی جب زمانہ زور دار چماٹہ ہمارے منہ پر دے مارے گا اور پھر اس کسان کی طرح کیا کریں گے جو سب کچھ کھو جانے کے بعد کہتا پھر رہا ہے 'اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت'۔


یہی وجہ ہے کہ اب ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بھی سختی سے منع کر رہے ہیں کہ بچوں کو اس سے دور رکھیں یا اسے "بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں" اور نوجوانوں کو بھی اسے کم سے کم استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس کے استعمال سے ہم زیادہ تر نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں اور ہماری قوت برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :