ماہر نفسیات

جمعرات 12 اگست 2021

Javed Ali

جاوید علی

یہ کہانی کوئی عجیب و غریب نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ قصہ اک ایسے مریض کے اردگرد گھومتا ہے جو اپنی زندگی سے ناامید ہوچکا تھا اور روم کے ایک بہت بڑے ہسپتال میں زیر علاج تھا اگلی صبح اس کا آپریشن ڈاکٹر جان نے کرنا تھا۔ وہ اپنی سوچ میں گم سم تھا کہ ایک نرس انتہائی خوبصورت، بڑی بڑی آنکھوں والی، گلاب کے پھول جیسا چہرہ، اپنی سریلی آواز میں گن گناتی ہوں روم میں داخل ہوئی اور کمرے میں لگے پردے سیدھے کرنے کے بعد مریض کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی حال احوال دریافت کرنے کے بعد پوچھا کہ کون ڈاکٹر آپریشن کرے گا؟ مریض نے کہا ڈاکٹر جان۔

او ڈاکٹر جان نہیں مجھے یقین نہیں آرہا۔ مریض میں سچ کہہ رہا ہوں، آپ حیران کیوں ہو رہی ہیں۔ نرس اس لئے کہ ان کے پاس تو کوئی وقت نہیں ہوتا، ان سے دو دو ماہ پہلے ٹائم لینا پڑتا ہے وہ تو بہت بڑے ڈاکٹر ہیں ان کے آپریشن سو فیصد کامیاب ثابت ہوتے ہیں آپ تو بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کا ڈاکٹر جان آپریشن کریں گے۔

(جاری ہے)

مریض بہت متمن ہو گیا کہ اس کا آپریشن دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر کرے گا۔

صبح مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور ڈاکٹر جان نے ان کا آپریشن کیا تو کامیاب ہو گیا کیوں کے مریض متمن تھا۔ یہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ ایک بہت بڑی ماہر نفسیات تھی جس نے اپنا کام کر دیکھایا اور مریض کو پتہ بھی نہ چلا کہ یہ ماہر نفسیات ہے۔
اک وقت ہمارے یہاں بھی بہت سے ماہر نفسیات ہوا کرتے تھے جو کوئی پراپر ڈگری یافتہ تو نہیں ہوتے تھے لیکن کسی بڑے سے بڑے ماہر نفسیات سے کم نہیں تھے لیکن بدقسمتی سے ہم اب ان سے دور ہو چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ میرے ملک کے اسی فیصد سے زیادہ نوجوان نفسیاتی مریض ہیں جو گراؤنڈ میں کھیلنے کی بجائے موبائلز اور کمپیوٹر پر گیمز کھیلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم اپنے معاشرہ سے کٹتے جا رہے ہیں آئے روز  خود کشی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ اک وقت ہمارے نوجوان کبڈی، کرکٹ، فٹبال، چھپن چھپائی وغیرہ کھیلا کرتے تھے جو حصہ نہیں لے سکتے تھے وہ بھی ان میچز کو خوب انجوائے کیا کرتے۔

اور شام کو ڈیروں پر محفلیں سجا کرتی تھی جس میں بزرگ سے لے کر بچے تک، عالم دین سے لے کر چور سبھی شرکت کیا کرتے تھے شعرو شاعری، قصہ خوانی سبھی کچھ ہوا کرتا تھا، تھیٹر، میلے، عرس، شادی بیاہ، دکھ سکھ پر سبھی اکٹھے ہوا کرتے تھے کوئی جس حال میں بھی ہوتا وہاں پہنچا ہوتا، لاچار کی بھی چارپائی اٹھا کر لے جایا جاتا تو وہ اپنی بیماری بھول جاتے اگر مسئلہ بڑھتا تو پکھی یا حکیم صاحب اک پڑی بنا کر دے دیتے اللہ اللہ خیرسللہ یا پھر پیر صاحب یا کوئی نیک بزرگ دم کر دیا کرتا تو مریض صحت یاب ہو جاتا۔


 اب تو موبائل ہی ہماری دین و دنیا سب کچھ بن چکا ہے کسی کو کسی کی کوئی خبر نہیں۔ اک کمرے میں والد کی لاش پڑی ہے تو دوسری طرف اولاد ٹیلی ویژن پر میچ دیکھ رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے
 دنیا کو ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں ہم لوگ
 اپنے آپ کی خبر نہیں او یار

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :