پھول کی زندگی اور گلدستہ تک کا سفر

منگل 28 دسمبر 2021

Javed Ali

جاوید علی

ہر روز پھولوں کی دوکان کے سامنے سے گزرنا تقریباً چار سال سے میرا معمول ہے۔ میں جس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں اس کے فرنٹ گیٹ پر یہ واقع ہے۔ ہر روز مصنوعی خوشبو کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ان جہیز کی طرح سجاۓ پھولوں کا درشن کرنا اور ان کی خوشبو سے مفت میں لطف اندوز ہونا بھی میرا معمول ہے۔ اگرچہ میں نے وہاں سے آج تک کوئی پھول یا پھولوں سے بنا ہوا گلدستہ نہیں خریدا لیکن ان تروتازہ پھولوں کی خوشبو میں چھپی داستان کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔


کہاں سے بیج آیا، کہاں بویا گیا تو پھر پودا اگا اور پھر باغ میں جوانی کو پہنچا۔  پھر کھاد پانی کے ساتھ ساتھ کئی بار مالی کے ہاتھوں تراشا گیا۔ اس کو جانوروں اور مختلف بیماریوں کے حملے سے بچایا گیا پھر کانٹوں کے ساتھ اس کی کونپلیں نکلیں تو اس وقت مالی کی ذمہ داری اور بڑھ گئی، ڈیوٹی سخت سے سخت تر ہو گئی۔

(جاری ہے)

جب کونپلوں نے منہ کھولا تو کلیاں کھلی تو پھول کہلاۓ۔

ادھر پھول کھلے اور خوشبو سے باغ مہک اٹھا، اور ادھر ان کے عاشق آن پہنچے۔ کچھ پھول چوری چوری توڑ لیے گئے کیونکہ خوبصورت چیزوں کے گاہک زیادہ ہوتے ہیں جو حاصل نہیں کر سکتے وہ ایسا کرتے ہیں عمیق حنفی لکھتے ہیں کہ
پھول کھلے ہیں لکھا ہوا ہے توڑو مت
اور مچل کر جی چاہتا ہے چھوڑو مت
 ایسے پھول عموماً خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے بعد پھینک دیئے جاتے ہیں اور یوں یہ پھول پیروں کے نیچے روند دیئے جاتے ہیں شکیل بدایونی لکھتے ہیں کہ
غم عمر مختصر سے ابھی بے خبر ہیں کلیاں
نہ چمن میں پھینک دینا کسی پھول کو مسل کر
 اور کچھ پھول معذب انداز سے دن کی روشنی میں بڑی احتیاط سے توڑے اور بڑی عزت سے بوٹے سے الگ کیے گئے اور پھر ٹوکرے پر ڈال دیے گئے جہاں ان کو نئے سنگی ملے۔

یہاں ان کو تروتازہ رکھنے کے لیے پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا پھر اسے مختلف برادری کے پھولوں کے ساتھ ایک کون نما کاغذ کے اندر خاص انداز سے سجا دیا گیا اور یہ پھول ایک گلدستہ کی صورت اختیار کر گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پھول کس طرح گلدستہ میں اپنے خاندان کی نمائندگی کرتا ہے۔ مثلاً گلاب کا پھول اپنی خاص پہچان رکھتا ہے اور یہی الگ پہچان اس کی شناخت ہے اس کی خوشبو، اس کی خوبصورتی اس کی شناخت کرواتی ہے۔


اس پھول کی طرح انسان کی بھی اک پہچان ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اس کا اخلاق۔
عورت کی زندگی بھی ایک پھول کی مانند ہے جب  پیدا ہوتی ہے تو اس کی پرورش کے ساتھ ساتھ پردہ داری بھی شروع ہو جاتی ہے، بھائی سکیورٹی گارڈز کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ جونہی جوان ہوئی تو خاندان سے ٹوٹنے کا وقت آن پہنچا اور پھر ٹوٹ کر گلدستہ میں سجے پھول کی طرح ایک اور خاندان میں ایک بیوی کے روپ میں منسلک ہو جانا اس کی قسمت ہے۔

افضل الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
میں چاہتا تھا کہ اس کو گلاب پیش کروں
وہ خود گلاب تھا اس کو گلاب کیا دیتا
 اس گلدستہ میں اس کی اپنی اک پہچان ہوتی ہے جیسے ٹوکرے میں پڑے مختلف پھولوں میں گلاب کا پھول اپنی خاص پہچان اور خوشبو رکھتا ہے بالکل اسی طرح ایک عورت اپنے کردار اور اخلاق کی خوشبو رکھتی ہے جو اسے دوسرے خاندان کے افراد سے ممتاز کرتی ہے۔

اگر ایک عورت پھول بن کر زندگی گزارے تو خاندان کے لوگوں کی زندگیاں اور اس کی زندگی گلزار بن سکتی ہے۔ پھول اور عورت میں ایک اور مماثلت پائی جاتی ہے جب دونوں کا اپنے خاندان سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو دوبارا کبھی ایسا تعلق بحال کرنا شاید ناممکن ہو جاتا ہے آزاد گلاٹی کہتے ہیں کہ
کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے
جو کھل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے
انسان جس معاشرے میں بھی رہتا ہو اس کو پھول کی طرح زندگی گزارنی چاہیے جس سے ہر کسی کو فائدہ ہو اگرچہ وہ اس کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :