خواب سے تعبیر تک

جمعہ 26 مارچ 2021

Javed Ali

جاوید علی

آج سے اکاسی سال پہلے، یوم نجات کے ٹھیک چار ماہ بعد، مسلم لیگ کے ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں ہمارے بڑے بڑے راہنماؤں کے علاؤہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے شرکت کی جو تعداد میں ایک لاکھ کے لگ بھگ تھے۔ اس اجلاس کی صدارت مسلم لیگ کے صدر (1933-1948) محمد علی جناح نے کی۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔

اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندؤوں کے حسن سلوک سے آشنا دوراندیش مسلمان راہنماؤں نے محمد اقبال کے خواب، تاریخی پسِ منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے مشورہ کیا اور اگلی روز شیر بنگال مولوی اے۔کے فضل الحق نے اسے ایک قرارداد کے روپ میں پیش کیا جس کی تائید ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تیرہ راہنماؤں نے کی جن میں چودھری خالیق الزماں،قاضی ضیض عیسیٰ کے والد قاضی عیسیٰ،حاجی عبداللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبد الحامد بدایوانی اور بیگم مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھیں اور بعد میں اجلاس میں شریک تما افراد نے بھی تائید کی۔

(جاری ہے)

قائد اعظم محمد علی جناح نے صدارتی خطبہ میں ہندو، مسلم تاریخ کا نچوڑ یوں پیش کیا کہ
"   ہندواور مسلمان الگ الگ فلسفۂ مذہب رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے اور دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے۔ وہ دو الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔

ان کا تصور حیات اور طرز حیات الگ الگ ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تاریخوں سے وجدان اور ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کا رزمیہ ادب الگ ہے۔ ان کے مشاہیر الگ الگ ہیں اور ان کا تاریخی سرمایہ جدا جدا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے ہیرو دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں اور اسی طرح ان کی فتح اور شکست ایک دوسرے کے لئے مختلف حیثیت رکھتی ہے۔


دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں جمع کر دینا، جہاں ایک قوم عددی لحاظ سے اقلیت ہو اور دوسری اکثریت، نہ صرف باہمی مناقشت کو بڑھائے گا بلکہ بالآخر اس نظام کی بربادی کا باعث ہو گا جو ایسے ملک کی حکومت کے لئے وضع کیا جائے گا۔ مسلمان ہر اعتبار سے ایک مستقل قوم ہیں اور انہیں ان کا الگ وطن، ان کا اپنا علاقہ اور اپنی حکومت ملنی چاہئے۔

"
اقبال کے خطبہ الہ آباد کی طرح اس قرارداد میں جغرافیائی لحاظ سے شمال مغربی اور مشرقی اکائیوں پر مشتمل مسلم اکثریتی علاقوں کو الگ ریاست یا ریاستوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس قرارداد کو طنزاً ہندو لیڈروں اور ہندو اخبارات میں "قرارداد" لاہور کو "قرارداد پاکستان" قرار دیا گیا اور انگریز نے اسے "جناح کا پاکستان" قرار دیا۔


یہ غلط ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ قرارداد محض ایک خواب تھی کیونکہ اس کے پیچھے بہت سے ہمارے تلخ تجربات ہیں۔برصغیر میں جو بھی حملہ آور آئے یا تو وہ ہندو مذہب میں مدغم ہو گئے یا واپس چلے گئے لیکن مسلمان واحد حملہ آور تھے جنہوں نے نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھا بلکہ ہر میدان میں اپنا رنگ بکھیرا اور اپنے رنگ سے برصغیر کی کایا ہی پلٹ دی۔

مسلمانوں کے حسن سلوک کو دیکھ کر لاتعداد ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔
جب تک مسلمان اپنے عروج پر تھے تخت و تاج پر برجمان تھے تو ہندو اور سکھ انہیں اپنا آقا تسلیم کرتے رہے جوں ہی مسلمانوں کے تخت وتاج پر بیٹھنے والے(بادشاہ) کمزور ہونے لگے تو ہندو اور سکھوں نے اپنی اصلیت کو آشکار کروانا شروع کردیا اگرچہ مسلمان حکمرانوں نے کوئی اس قسم کی زیادتی نہیں کی جس سے ان کو اس قدر تکلیف پہنچی ہو جس کا بدلہ رنجیت سنگھ نے لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی مکاریاں عیاں ہوتی جا رہی تھی اور مسلمان دوراندیش لیڈر ان کو بھانپتے جا رہے تھے۔ انہی کا پش خیمہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا جو اس بات کا  بولتا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں مسلمان فوجی لحاظ سے کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے تھے اور ہندو یہ چاہتے تھے کہ اقتدار کسی نہ کسی طرح ان کے ہاتھ لگ جائے۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان کو تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ سر سید احمد خان جو ہندوستان کو دلہن کی مانند قرار دیا کرتے تھے جس کی ایک آنکھ ہندو اور دوسری مسلم قرار دیتے تھے جس کی ایک آنکھ (ہندو یا مسلمان) خراب ہونے سے ساری خوبصورتی ضائع ہو جائے گی۔ وہ 1867 کو بنارس میں ہونے والے اردو ہندی تنازعہ کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دونوں قومیں مستقبل میں ایک ساتھ نہیں رہے سکتیں۔

سر سید احمد خان پہلے شخص تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لیے قوم کا لفظ پہلی بار استعمال کیا۔ بیشک انہوں نے مسلمانوں کو عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن حقیقت میں انہوں نے ہی ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی شعور دیا۔ انہوں نے مسلمانوں اور انگریز کے درمیان مفاہمت کرانے کی پالیسی اپنائی۔ مسلم  لیگ انہی کے لگائے گئے پودے (علی گڑھ کالج 1877) کا ثمر ہے۔

اسی پودے کے نواب وقار الملک، نواب محسن الملک جیسے اور کئی راہنما پھول ہیں جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ (1906) کی بنیاد رکھی. شروع میں مسلم لیگ قیادت کی رائے سے اختلاف کرنے والے خود محمد علی جناح نے 10اکتوبر 1913 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ انہی کی کاوشوں کا نتیجہ لکھنؤ پیکٹ تھا جس کی بنیاد پر انہیں "ہندو مسلم اتحاد کا سفیر" کا خطاب دیا گیا۔

پھر 1919 میں باقاعدہ کانگرس سے راہیں جُدا کر لیں۔ کانگرس کا مسلم لیگ کے مطالبات سے انحراف اور قائد کے پیش کردہ چودہ نکات (1929) سے صاف انکار مزید راہیں جُدا کرنے کا سبب بنا۔ 1937 کے الیکشن کی جیت کے نتیجہ میں کانگرس سات صوبوں میں اپنی وزارتیں بنانے میں کامیاب ہوئی اور انہی وزارتوں نے عام مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے سے پٹی ہٹا دی۔ بلآخر 1939 میں کانگرسی وزارتیں ختم کر دی گئیں۔

تقریباً دو سال کی ان کانگرسی وزارتوں کا ثمر مسلم لیگ کو (1945-46) کے الیکشن میں ملا جب لیگ  کانگرس کے دعوے کی دھجیاں بکھیرتی واحد مسلم نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔ اسی الیکشن نے مسلم لیگ کو استحکام دیا اور 15 اگست 1947 کو واحد اسلامی ملک "اسلامی جمہوریہ پاکستان" جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ 1948 میں 14 اگست کو بطور یوم آزادی منانے کا اعلان پہلے گورنر جنرل (محمد علی جناح) کی منظوری سے کیا گیا۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اس پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنائیں جس کے لئے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی تھیں جن کا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟
"لا إله إلا الله"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :