کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے

پیر 26 اپریل 2021

Javed Ali

جاوید علی

جب مسلمانوں نے اپنے اصلاف کی اقدار کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو یورپ کا عروج قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ علم جس کے بارے میں آقا دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے" اور اسے حاصل کرنا "ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے"۔ ہم نے اس سے مکھ موڑا تو ہماری میراث کسی اور کے ہتھے چڑھ گئی۔

وہ اس میدان میں ہم سے کئ گنا آگے نکل گیا اور ہم منہ تکتے رہے۔ پھر وہ ہم پر چڑھ دوڑے اور ہم اپنی نام نہاد ریاستوں یا خلافت سے بھی دست بردار ہو گئے وہ آقا اور ہم غلام ہو گئے۔اگرچہ بیسویں صدی میں ہم کو جسمانی طور پر آزاد کردیا گیا لیکن ذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں۔ یہ غلامی جو آزادی کے بعد نسل در نسل چلی آرہی ہے اس کی اصل وجہ وہ زبان ہے جس میں ہم اپنی آنے والی نسل کو تعلیم دلاتے ہیں وہ ہے انگریزی جس کی چھاپ نہ صرف ہمارے ٹیلی ویژن، فلم، ڈرامے اور ادب کی کتابوں میں نظر آتی ہے بلکہ زندگی کے ہر میدان میں۔

(جاری ہے)

جس کی وجہ سے ہم اپنے ادب، اپنی اقدار، رسم و رواج یعنی تہذیب سے دور سے دور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں زبان صرف زبان نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب بھی لاتی ہے۔ افسوس! ہم نے انگریزی سیکھنے کے چکر میں قومی تو قومی اپنی مادری زبان بھی بھول گئے ہم ایک ہی راگ آلاپ رہے ہیں کہ انگریزی سیکھنے کے بغیر ترقی ناممکن ہے ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا دنیا کا صرف تیس فیصد ادب انگریزی زبان میں ہے جبکہ بقیہ ستر فیصد ادب دوسری زبانوں میں ہے گو کہ انگریزی سیکھنا برا نہیں ہمیں اسے صرف زبان کی حد تک سیکھنا چاہیے۔

اب بات تو اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بچوں کے دادا ابو کو پنجابی، سندھی، یا اردو وغیرہ پڑپوتوں کے سامنے بولنے سے روکا جاتا ہے ان کے سامنے صرف انگریزی میں بات کی جاتی ہے دادا کو پڑپوتے کے کمرے میں انگریزی کے علاوہ کچھ بولنے کی اجازت اس لئے نہیں ہے کہ بچے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں اس سے ان کی تعلیم کا حرج ہو گا۔ دنیا کے نقشہ پر کوئی ایسا قوم موجود نہیں ہے کہ جس نے کسی اور کی زبان میں علم حاصل کر کے ترقی کی ہو یا کوئی  انوینشن کی ہو۔

دنیا میں جس قوم نے بھی ترقی کی ہے صرف اور صرف اپنی زبان میں، ہمارے سامنے چین اور چاپان واضح مثال ہیں جنہوں نے اپنی زبان میں علم حاصل کر کے ترقی کی۔
پولیس ملزم کو پکڑ کر عدالت میں پیش کرتی ہے تو ملزم کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ جج صاحب نے کیا فیصلہ دیا، ڈاکٹر کو مریض کی سمجھ آتی نہ ہی مریض کو ڈاکٹر کی سمجھ آتی ہے دونوں ایک دوسرےکو صحیح طرح اپنی بات سمجھا نہیں پاتے کیونکہ ڈاکٹر نے انگریزی میں علم حاصل کیا ہے اور مریض پنجابی، سندھی،بروحی،پشتو یا بلوچی میں بات کرتا ہے۔


 مشہور مزاحیہ شاعر انور مسعود نے کچھ یوں اپنے الفاظ کو موتیوں کی لڑی میں پرویا ہے کہ
کبھی پھر گفتگو ہو گی کہ یہ سوغات افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسے بناتی ہے
ابھی اتنا کہہ دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :