ملکی اعلیٰ طبی تعلیم سعودی عرب ،مشرق وسطیٰ اور پس پردہ عوامل

پیر 16 ستمبر 2019

Kamran Naseem

کامران نسیم بٹالوی

چند ہفتے قبل میں نے اپنے ایک کالم میں شعبہ طب کے بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی تعلیمی اداراہ سی پی ایس پی کی قومی خدمات اور اسی ادارہ کی اندرون اور بیرون ملک پیشہ وارانہ ساکھ کو نقصان پہنچانے والے محرکات اور عوامل کو منظر عام پر لانے کی ایک چھوٹی سی سعی کی اسی کالم کا حصہ دوم جس میں کچھ حقائق اور پہلے کالم کے دو رس نتائج کے حوالے سے بیان کرنا چاہوں گا جسے نہ بیان کر کے میرا مقصد گفتگو نا مکمل اور ادھورا رہ جائے گا کہ کس طرح میڈیکل ایجو کیشن کے عالمی ستون CPSPکو چند مفاد پرست ہم وطن اور ہندو لابی سے مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی بدنام کرنے اور سی پی ایس پی کی ڈگریوں کو ناکرہ ثابت کرنے کے درپے ہیں اور دشمنان پاکستان کے اس گھناؤنی سازش سے اورکس طرح عرب ریاستوں میں خدمات انجام دینے والے چھ ہزار کے قریب پاکستانی ڈاکٹروں کو ملازمتوں سے فارغ کروانے کے چکر میں ہیں۔

(جاری ہے)


کالم کے حصہ اول کی اشاعت کے بعد ملکی و غیر ملکی سطح پر پاکستانی ڈاکٹر کمیونیٹی کے سوشل میڈیا گروپس و دیگر ذرائع کے توسط ایک خوش آئند بات علم میں آئی کہ مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں پاکستانی ڈگری ہولڈر ڈاکڑوں کی بے توقیری میں کسی حد تک کمی آرہی ہے لیکن افسوس اس امر کا کہ ابھی بھی چند مکروہ پاکستانی چہرے اپنی چیرہ دستیوں میں مصروف عمل ہیں ۔

اس سلسلہ میں جب دوبارہ پاکستان سے باہر طبی اداروں کے سٹیک ہولڈرز(کرتا دھرتا) اور سپیشلیسٹ(ماہرین امراض) سے رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اب بھی پاکستان دشمن طاقتیں پاکستانی ڈگریوں کی بے توقیری کی خبروں کو میڈیا کی زینت بنا کر تمام پاکستانی طبی تعلیمی اداروں کی معیار تعلیم کو نیچا دیکھانے کا پراپیگنڈہ پورے زور شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اور حیرت اس بات کی کے اس موضوع پر چندقد آور اور سنیئر ترین کالم نگار بھی اپنی قلم کو جنبش دے چکے ہیں لیکن فرط حیرت یہ کے انہوں نے حقائق اوراعدادو شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے اس حساس معاملہ کی سنگینی کو ہوا دیتے ہوئے دشمنان پاکستان کونام نہاد مستند جواز فراہم کرنی کوشش کی ۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسی تحریروں کے ذریعہ قومیت اور اجتماعیت کی نسبت انفرادیت کو سہارا دینے کی کیونکر کوشش کی گئی؟
ایک تحقیق کے مطابق حالیہ سالوں میں سعودی عرب اور مشرقِ وسطی سمیت کسی بھی ملک کے پوسٹ گریجویشنرریگیولیشن میں کسی بھی قسم کی کوئی نئی تبدیلی یا شق لاگو نہیں کیے گئے ہیں،جس سے ہمارے ملک کی ڈگریاں متاثر ہوں یا اجتماعی اثرات سعودی عرب سمیت بیرون ملک کام کرنے والے ہمارے ڈاکٹرز پر مرتب ہوں۔

سعودی عرب کے 2017 - 18ئکے ریگولیشن اس وقت بھی لاگو ہیں ان میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ،ان میں پاکستانی فیلو شپ اور ممبر شپ بھی شامل ہیں،اور انڈیا کی طبی ڈگریوں سے اوپر کی سطح پر ہے جبکہ دبئی ،کویت سمیت دیگر مشرقی وسطی کے ممالک میں بھی سی پی ایس پی اور یونیورسیٹیز کی ڈگریاں تسلیم شدہ ہیں اور کسی بھی ملک میں نئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

ہر ملک اپنے نظامِ تعلیم کے مطابق سالانہ کار کردگی کی بنا پر رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں ہدایت جاری کرتے ہیں۔اگر چند ایک ایسے ڈاکٹرز جنہیں 18-2017کے ریگولیشن کے مطابق سٹیٹس کو دیا گیا یا سالانہ کار کرگی کی بنیاد پرترقی یا تنزلی کا پروانہ ملا ہو تواس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی ہمارے اداروں کی کار کردگی میں فرق آیا ہے یا اس کے اجتماعی اثرات لاگو ہوئے ہوں۔

انفرادی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے الزام تراشی کے ہیں پس پردہ عوامل کو سامنے لانا چاہیے ۔اگر سعودی عرب سمیت مشرقی وسطی کے کسی بھی ملک میں گزشتہ ایک سال میں کوئی تبدیلی آئی ہے توہمیں ضرور مطلع کیا جائے تاکہ ہم بھی اس کو اربابِ اختیار کے علم میں لائیں۔معلومات کے مطابق صوبائی اور وفاقی سطح پرتحقیقات میں ایسی خبروں میں صداقت ثابت ہونا باقی ہے،سی پی ایس پی کے سیکریٹری پہلے ہی ان الزامات کے سختی سے تردید کر چکے ہیں۔

اور گزشتہ ہفتہ وفاقی سیکریٹری صحت سے ملاقات میں کالج کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل افیئرز اور افواج پاکستان کے نمائندہ کونسل اور ریٹائرڈ میجر حکومت کو حقائق کے آگاہ کر چکے ہیں۔سعودی عرب میں مقیم ڈاکٹرز کی تنظیم ریاض ایمبیسی کے استفسار پر بتلا چکی ہیں کہ نہ تو حالیہ تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی یہاں پر مقیم ڈاکٹرز کوکوئی اجتماعی مسئلہ درپیش ہے۔


اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقائق کے بر عکس ایک ایسوسی ایشن کے ترجمان نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کن عوامل کی وجہ سے کیا گیا ۔اس بات کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ ایسوسی ایشن کی قانونی حیثیت کیا ہے۔عہدیداران کن بنیاد پر بنے اور ان کو کس نے اختیار دیا ملکی اور عالمی سطح پر ملکی اعلیٰ طبعی تعلیم کے اداروں اور ان کی ڈگریوں کی تصدیق کروائیں۔

اکیڈیمک اور ریسرچ میں غیر مصدقہ خبروں اور مبالغہ آرائی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے دروع گوئی اس انداز میں کہ کوے کو سفید ثابت کرنے پر توانائیاں صرف ہو رہی ہوں ۔افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ قد آور دوست بھی اس بہاؤ میں بہہ جائیں ۔مزیدتحقیق اس سلسلہ میں جاری ہے اور آ ئندہ اگر کا لم میں تحریری ثبوت پیش کرنا پڑے تو وہ بھی کئے جایں گے کہ اصل حقائق کیا ہیں،بلا تحقیق اور بغیر کسی ثبوت کے ایسی خبروں کے ہیں پردہ کیا حقائق تھے۔

اور کن انفرادی قوتوں نے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسی خبروں کا سہارا لیا۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر کمیونیٹی خواہشمند ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایسی ایسوسی ایشن اوران کے ترجمان کے سوشل میڈیا پر پھیلانے والے کی خبروں کی تہہ تک بھی پہنچا جائے اور ان کی ماضی کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جائے اور مستقبل میں موثر تدارک بھی اس انداز سے کیا جائے کہ کوئی بھی آئندہ بے بنیاد خبروں کو پھیلا کر اداروں کے تشخص کو تقصان نہ پہنچا سکے۔

اور اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف سی ایس پی سی بلکہ ملک بھر میں خدمات انجام دینے والے مستند اور اچھی ساکھ کے حامل ادروں کی اعلی کارکردگی کا معترف ہونے اور اقوام عالم میں انکی ساکھ کو باور کروانے کے لئے ہر حکومت کو بین الاقوامی سطح پر دنیا کے تما م بڑے ممالک کے بڑے شہروں یا دارلحکومت میں پاکستانی پروفیشنلر ایجوکشین اور اس کا سکوپ کے موضوع پر سیمنار اور ایکسپو کروانے چاہیئے تا کہ تعلیمی محاذ پر سر گرم پاکستان دشمنوں کی بیخ کنی کی جا سکے جو محض پراپیگنڈہ کی بدولت پاکستانی پروفیشنلز کو عالمی فیلڈ سے آؤٹ کرنے کی ناکام کوشش میں ہیں اور ایسی تمام نام نہاد نمائندہ پاکٹ ایسو سی ایشن کو کالعدم قرار دیکر انکی ڈگریا ں منسوخ کرتے ہوئے قرار واقعی سزا دینی چاہیے تا کہ ایسے مکرو چہرے جو چھپی دہشت گردی میں مصروف عمل ہیں بے نقاب کیا جا سکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :