سی پی ایس پی ملکی اور عالمی میڈیکل کا اہم ستون

پیر 19 اگست 2019

Kamran Naseem

کامران نسیم بٹالوی

پاکستان معیارِ تعلیم کے لحاظ سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شعبہ تعلیم ہو اس کے فارغ التحصیل پیشہ ور چاہے وہ انجینئر ہوں یا ڈاکٹر نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر پیشہ وارانہ خدمات میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ خاص کر کے میڈیکل ایجوکیشن اور ریسرچ میں دوسرے ممالک میں بھی اپنی مہارتوں کو لوہا منوا رہے ہیں اس ضمن میں ان پیشہ وروں کو تیار کرنے والے اداروں کی تعریف یا ان کی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے تو یہ کسی بغض سے کم نہ ہو گا۔

دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان کے ڈاکٹر زاور دیگر شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے حضرات تن دہی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اور جس کا سہرا براہِ راست عالمی شہرت یافتہ پاکستانی طبی ادارہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان (CPSP) کے سر ہے ۔

(جاری ہے)


ملک میں اعلی طبی تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان1962 میں آڑڈیننس نمبر XXکے تحت لیفٹینیٹ جنرل واجد علی برکی کی قیادت میں قائم ہوا،اس وقت کالج کے تیس ہزار سے زائدطبی ماہرین پبلک ،پرائیویٹ اور افواج پاکستان کے طبی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

یہ ملک کا واحد طبی ادارہ ہے جو 74مختلف شعبوں میں سپیشلائزیشن کروا رہا ہے۔اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی جبکہ اندرونِ ملک 15سینٹر اور بیرونِ ملک نیپال، سعودی عرب، آئرلینڈاور بر منگھم میں سنٹرز متحرک ہیں۔ 20ہزار سے زائد ڈاکٹرتقریباً 200تسلیم شدہ اداروں میں تین ہزار سپروائزرزکی زیرِنگرانی تربیت کے مختلف مراحل میں ہیں کالج کی بنیادبرطانیہ کے رائل کالجز کی طرز پر رکھی گئی ہے ۔

امتحانات پیشہ ورانہ تربیت اور قابلیت کے تمام اصول اور قواعد و ضوابط اور امتحانی نظام برطانیہ ، آئرلینڈ ،کینیڈا،امریکہ ا ور آسٹریلیا کے رائل کالجز سے مطابقت رکھتے ہوئے ترتیب دیے گئے ہیں۔باہمی امتحانی نصاب اور تربیتی کورس کو مرتب کرتے وقت قومی اور علاقائی ضروریات کومدِ نظر رکھا گیا ہے اور کالج کو ایک خودمختار ادارے کے طور پر رائل کالجز کے طرز پر منظم کیا گیا ہے ۔

حکومتِ پاکستان کے آئن 1962ئکے ایکٹ کے مطابق کالج کے تمام معاملات اور انتظامی امور کی ذمہ داری کالج کے ملک بھر کے فیلوز کی منتخب کردہ 20رکنی کونسل چلاتی ہے ،جنکا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے۔ 11اراکین کا تعلق پنجاب سے6کا سندھ سے 2کا خیبر پختونخواہ سے اور 1ممبر بلوچستان سے ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں فیلوز نے پروفیسر ظفر اللہ چوہدری کی سربراہی میں چار سال کے لیے کونسل کو منتخب کیا جس میں پبلک، پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ افواجِ پاکستان تین میجر جنرل شامل ہیں ۔

کالج اسوقت عالمی سطح پر ملکی شہرت کی پہچان بن چکا ہے اسکے فیلوز
 ملک اور بیرونِ ملک اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔یہ ادارہ حکومتی مالی امداد کے بغیر فیلوز کے تعاون سے اپنا معیار برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی طرف گامزن ہے یہ واحد ایسی مثال ہے جو حکومت پر بوجھ بنے بغیر ملک کی مثالی خدمت کر رہا ہے ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ عالمی سطح پر ملک کی پہچان بننے والے ادارے کو گزشتہ دنوں بلا جواز اور بلا تحقیق سعودی عرب اور مشرقِ وسطی میں پاکستانی ڈگریوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔


اس سلسہ میں ہم نے مکمل تحقیق کی اور سعودی عرب سمیت تمام مشرقِ وسطی کے طبی قوانین کا مطالعہ کیا سعودی ہیلتھ کونسل نے اپنے قوانین 2017-2018میں لاگو کئے ان ریگولیشن کے مطابق باب نمبر 8سیکشن نمبر 22میں دنیا بھر کی ڈگریوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے نمبر پر امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ مملک ہیں دوسرے نمبر پر جرمنی ،اٹلی ، سپین، سمیت مشرقِ وسطی سمیت دیگر عرب ممالک شامل ہیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنزکی فیلو شپ بھی اس میں شامل ہے۔

انڈیا میں چونکہ فیلو شپ نہیں ہوتی اس لیے ان کا ایم ایس ایم ڈی بمعہ ماسٹر ڈگری شامل کیا گیا۔تیسری قسم میں اردن ،بنگلہ دیش ،شام ،فلپائن، روس جیسے ممالک شامل ہیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی ممبر شپ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اسکو انڈیا کی ایم ایس اور ایم ڈی کے برابردرجہ دیا گیا ہے ۔ جبکہ ایف سی پی ایس کو ایم ایس ایم ڈی انڈیا سے اعلی درجہ میں رکھا گیا ہے ۔

کیونکہ معیارِ تربیت زیادہ سٹریکچرڈ ہے اور ای لاگ سسٹم لاگو ہے جس میں ساؤتھ ایشا ء میں سی پی ایس پی بانی ادار ہ ہے ۔اس کا امتحانی نظام عالمی معیار کے مطابق ہے سی پی ایس پی آئر لینڈ، یوکے میں اپنے طلبہ کو مخصوص مدت کے لیئے تربیت پر بھجواتا ہے اور واپسی پر ڈاکٹر اپنے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔سی پی ایس پی مربوط تحقیقی نظام ہے جس کی وجہ سے JCPSPکا ایمپیکٹ فیکٹرکا حامل ہے جبکہ دیگر ادارے خصوصی ریسرچ گرانٹ کے باوجود ایمپیکٹ فیکٹر حاصل نہ کر سکے۔

سی پی ایس پی بین الاقوامی ATLSاور ACLSکے ذریعے اپنے تمام طلبہ کی تربیت کرواتا ہے جس وجہ سے اس کی ڈگری کو انڈیا کی ڈگری پر فوقیت دی گئی ہے۔
سال2017-18 کے ریگولیشن میں ہماری یونیورسٹی کی ڈگریوں کاتذکرہ نہیں اگر وہ 2018میں شامل ہی نہیں اور ان کے نکالے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،سی پی ایس پی کے سیکریٹری پروفیسر ارشاد وحید اپنے خط میں ان خبروں کی پہلے ہی سختی سے تردید کر چکے ہیں کہ کالج کا کسی بھی اور ڈگری سے نہ اور تعلق ہے اور نہ ہی ان کا دائرہ اختیار ہے اس کے باوجود ذاتی مفادات کی خاطر ایسی خبروں کو پھلانا کہاں کا انصاف ہے اور اس سے کیا ملک یا ادارے کی خدمت کی گئی صرف دنیا میں جگ ہسائی کا باعث بنے۔


ہمیں یہ بھی خبر ملی ہے کہ لاہور کی تینوں میڈیکل یونیورسٹیوں کے سربراہان دبئی اور سعودی عرب ہیلتھ اتھارٹی سے رابطے میں ہیں اور آئندہ آنے والے ریگولیشن اُمید افزا ء چیزیں ہیں ۔گزشتہ دنوں سی پی ایس پی کے ترجمان نے کہا جن طبی اداروں کی طبی تعلیم کے معیار کی بلندیوں کے سلسلہ میں مدد کی ضرورت ہو ادارہ ہر طرح کی سرپرستی کریگا۔ ہم نے سی پی ایس پی کے ایکٹ اور تمام یونیورسٹی کے ایکٹ کا بھی مطالعہ کیا ہے ،سی پی ایس پی کے کونسل اور فیلو ہونے کے ناطے سخت ہوتے ہیں اور ایکٹ اس بات کی اجازت دیتا ہے خواہ ان کا تعلق پرائیویٹ ، پبلک سیکٹریا افواج ِ پاکستان سے ہو اس سلسلہ میں خوامخواہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ ملکی تمام طبی اداروں کی 80%سے زائدفیکلٹی اور یونیورسٹی کے پروگرامز کے سپروائزز کالج کے فیلوز ہیں ان کی موجودگی دونوں اداروں کے نظام تعلیم و تربیت کے مضبوطی کا باعث ہوتی ہے ۔

1962سے لے کر آج تک سی پی ایس پی کونسل نے طبی اداروں کے سربراہان اور افواجِ پاکستان کی میڈیکل کورکے جنرل خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ، سی پی ایس پی کے سابقہ صدر پروفیسر اعجاز احسن ، پروفیسر صادق حسین بذاتِ خود پرنسپل تھے اسی طرح نائب صدر پروفیسر اختر خان، پروفیسر ایس اے گردیزی، پروفیسر سید سبط العین ، پروفیسر راشد لطیف بیک وقت دونوں خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔

پروفیسر حیات ظفر پرنسپل نشتر میڈیکل کالج کے ساتھ سی پی ایس پی کے صدر رہے ،کالج کی تو بنیاد ہی افواج ِ پاکستان کی میڈیکل کور کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل واجد علی برکی نے رکھی بعدازاں افواج ِ پاکستان کے حاضر سروس جنرل محمد افضال خان ،جنرل کیانی، میجر جنرل سلمان بھی کونسل اور نائب صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔
موجودہ کونسل میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل اور دو حاضر سروس میجر جنرل ہیں،اس طرح شعبہ طب کے تین سیکٹر پبلک پرائیویٹ اور آرمی میڈیکل کور کی موثر اور متناسب نمائندگی طبی معیاری تعلیم کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے ہیں،اسی معیار کی وجہ سے ملک کی اہم یونیورسٹی آغا خان میں کالج کا پروگرام رائج ہے، شفاء انٹرنیشنل اور شوکت خانم سمیت ملک کے معیاری اداروں کے طبی تربیتی نظام سی پی ایس پی کے زیر نگرانی ہیں۔


ہماری تحقیق کے مطابق دبئی میں اس وقت بھی ایم ڈی اور ایف سی پی ایس تسلیم شدہ ہیں کویت سمیت مڈل ایسٹ میں دونوں پاکستانی ڈگریاں مانی جاتی ہیں البتہ ایف سی پی ایس کو بہتر درجہ دیا گیا ہے سعودی عرب سمیت کسی بھی مشرقِ وسطی کے ملک بھی گزشتہ پورے سال میں نہ کوئی نئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی تسلیم شدہ ڈگری کو نکالا گیا ہے۔ ہماری اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ ان عناصر کو سامنے لایا جائے جو بلا تحقیق ذاتی مفادات کی خاطر افواہیں پھلاتے رہے مذکورہ کسی ایک ملک نے بھی تسلیم شدہ ڈگریوں کو نکالے جانے کا نوٹیفیکیشن نہیں کیا ۔


سی پی ایس پی کی خدمات قابل فخر ہیں، قابل قدر ہیں کالج کے کونسل ممبران قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے قانونی تقاضوں کے مطابق حکومت پر بوجھ بنے بغیر عالمی معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ایسے میں حق بنتا ہے کہ ادارے کے ساتھ ادارے کی کونسل جو اعزازی طور پر بے لوث خدمات سرانجام دے رہی ہے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :