کتاب بینی اور سوشل میڈیا جھوٹی معلومات کا سمندر

ہفتہ 30 جنوری 2021

Kashif Baloch

کاشف بلوچ

اگر آج سے تقریبا15سال  پہلے دیکھا جائے تو   لوگ ریل گاڑیوں، بسوں، ہوائی جہازوں، اور انتظار گاہوں میں بیٹھے  کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ لوگوں کو کتابیں پڑھتا دیکھ کر اپنا بھی دل کرتا تھا کہ  کسی جگہ بیٹھ کر  مطالعہ کیا جائے  اور دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوتی تھی۔ گھر کے کسی ایک کمرے میں  چھوٹی سی لائبریری ہر  گھر کا ایک لازمی حصہ  ہوتی تھی  اور ہر دوسرے شخص کے پاس کم از کم ایک کتاب ایسی  ضرور ہوتی تھی جسے وہ سفر کے دوران یا انتظار کے لمحات میں مطالعہ کے لیے استعمال کرتا  تھا۔

ہسپتالوں اور دوسری انتظار گاہوں میں کتابیں، رسالے  رکھے جاتے تھے جنہیں وہاں بیٹھنے والے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے استعمال کرتے  تھے۔
لیکن  جب سے سمارٹ فون آیا ہے  لوگوں کے ہاتھ سے  کتاب  ایسے غائب ہوئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ، اور اب ریل گاڑیوں، بسوں، اور انتظار گاہوں میں بیٹھے لوگ اپنے ہاتھوں میں  اسمارٹ فون  لیے  مشغول  نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ہی وجہ ہے کہ اب  کتاب بینی کا شوق کافی حد تک  کم  ہو چکا ہے یا ختم ہونے ہی والا ہے۔  اب کہیں کتابوں کی دوکانیں تبدیل ہوکر جوتوں کی دوکانیں بن گئی ہیں تو  کہیں کتابوں کی دکانیں صرف ردی کا ڈھیر محسوس ہوتی ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کتابوں کی دکانوں کا حال قبرستان جیسا ہو گیا ہے  عوام اب وہاں جانے کا نام تک نہیں لیتی۔
سمارٹ موبائل فون میں  ہر قسم  کی سہولیات موجود ہوتی ہیں اس لیے  یہ دور جدید میں ہرانسان کی ضرورت بن چکا ہے۔

اگر گھر میں کھانا نہ بھی پکے  تو بچے صبر کر لیں گے، لیکن اگر  انٹر نیٹ  میں ذرا خلل  آ جائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ اسی سمارٹ فون کی بدولت  ہی معلومات کی فراہمی اور سوشل میڈیا کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے ۔ لیکن  جہاں اس کے مثبت پہلو ہیں، وہیں اس کے منفی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کسی  دوسرے  سے ملنے والی معلومات کو آگے پہنچانے  کے لیے ایک بٹن دبانا پڑتا ہے۔

اس چکر میں کوئی نہیں پڑتا کہ معلومات درست ہیں  یا غلط اور خاص طور پر  جب  ملنے والی معلومات مذہبی نوعیت کی ہوں، جس  میں بہت سے ثواب کی نوید، یا پھر شیطان کے روکنے کا ذکر کیا گیا ہو، اس وقت تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق و تصدیق کے بس شیئر کرنے پر لگ جاتی ہے اور اس کو نیک کام سمجھ کر  آگے پھیلانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔


مذہب، صحتِ عامہ، سماجی شعبہ، اور دیگر امور کے بارے میں بہت سی غلط  خبریں  اور معلومات باقاعدگی سے پھیلائی جارہی ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لے رہیں ہیں  جبکہ  ہمارے رسول اکرم ﷺ نے بھی بغیر تصدیق کے بات آگے پھیلانے سے منع کیا ہے۔
 اس دور میں کوئی شخص بھی  میڈیا سے قظع  تعلق نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ دور میڈیا کا دور  ہے۔

ٹی وی ، انٹر نیٹ، اخبارات  اور دیگر  ذرائع سے خبروں اور معلومات کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ہمارے لیے ان  تک  رسائی بھی ممکن نہیں۔ اس بات کوئی  انکار نہیں کر سکتا کہ میڈیا کی وجہ ہی سے  ہر شعبہ زندگی کے بارے میں عوام الناس کو  کثیر معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ دنیا  میں کہیں  کچھ بھی ہو، ایک لمحے  میں روئے زمین کا ہر شخص اس سے آگاہ ہوجاتا ہے، جبکہ ماضی میں  بہت وقت درکار ہوتا تھا۔

میڈیا  کی بدولت ہی عوام  کو سیاست، صحت، تعلیم، مذہب، کھیل، سماجی امور غرض  یہ کہ ہر  ایک شعبہ کے بارے میں نت نئی معلومات باآسانی میسر ہیں۔یہ میڈیا کا نہایت  مثبت  کردار ہے لیکن ساتھ ہی تصویرکا دوسرا رخ بھی ہے کہ بعض اوقات میڈیا اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا، اور غلط معلومات کو بھی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز  ایسے ہیں جو ملنے والی معلومات کی تصدیق کیے بغیر شائع کر دیتے ہیں۔

اس دور میں اب گنے چنے اخبارات اور ٹی وی چینل ہی  ہیں جو مستند اور قابلِ اعتبار ہیں۔  لیکن سوشل میڈیا بے لگام  ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر قسم  کی معلومات، خبریں، اور مواد بغیر کسی  تحقیق  کے ایک وائرس کی طرح پھیلتا جاتا ہے اور کوئی تصدیق  کی زحمت نہیں کرتا۔
سوشل میڈیا یوزر اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ اس دور میں  معلومات  بہت تیزی سے  پھیلتی ہے ، اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ بغیر تحقیق و  تصدیق کے سوشل میڈیا پر  ملنے والی  کسی بھی معلومات  کو  کسی دوسرے سے شئیر نہ   کریں بلکہ اس طرح کی معلومات اور پیغام دینے والے کو آگاہ کریں کہ ایسی چیزیں آگے پھیلانے سے گریز کرے۔

ممکن ہے کہ ہماری اس کوشش سے یہ سلسلہ  تھم  جائے۔  اس صورت حال کا تدارک کرنے کی کوشش ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :