فلسفہ آزادی

بدھ 18 اگست 2021

Kashif Baloch

کاشف بلوچ

آزادی ،ایک بیش قیمت نعمت،اللہ تعالی کا انمول تحفہ اورجینےکا اصل احساس ہے،اس کے برعکس غلامی  ایک کربناک اذیت اور بھیانک اور خوفناک زنجیر ہے؛ جس میں زندگی بدسے بدترین ہو جاتی ہے،انسانوں کو انکے  جائز اختیارات تک  محروم کر لیا جاتا ہے  اورانسان  ایک زندہ لاش بن  جاتاہے۔ اسی وجہ سے بنی نوع انسان کےساتھ ساتھ حیوانات بھی اپنی  بساط کے مطابق اس  غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور آزاد فضاء میں سانس لینے کے لیے  پُر جوش رہتے ہیں اور جدوجہد کرتے رہتے  ہیں۔


اس دنیا میں  مکمل   آزادی کبھی ممکن ہی نہیں ہے۔ دراصل  آزادی حقیقت کا ہی نہیں، بلکہ ایک خواب ، امید اور جستجو کا بھی نام ہے۔ آزادی ایک ارتقائی عمل ہے جو مسلسل چلتا رہتا ہے  جس میں انسانی حواس خمسہ  اور  ذاتیت، ملموسیہ، دانائی  کی نشونمااور ترقی ہوتی ہے، اس نشونما میں ملک، ریاست یا سوسائٹی  کا کردار  ایک سہولت کار کا سا ہوتا ہے، یا پھر  ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی  بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے۔یوں کہنا بھی غلط نہیں ہو گا  کہ  آزادی ایک احساس کا  نام بھی ہے۔
اصل آزادی ملک یا ریاست کی نہیں بلکہ ممالک میں رہنے والے باشندوں کی ہوتی ہے۔ جس وقت انسان نہیں تھے تو آزادی کا نظریے کا وجود بھی نہیں تھا، لیکن زمین کے وہ ٹکڑے جنہیں آج ہم ممالک کے نام سے جانتے  ہیں بہر حال  وہ تب بھی وجود رکھتے تھے۔


بنی نوع انسان کی آمد کے بعد یہ انسانی معاشرہ  وجود میں آیا  تو صحیح ،غلط  اور وسائل  کی خاطر انسانوں نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تو مظلوم ، محکوم اور ظالم ، حاکم کی اصطلاحات وجود میں آئیں۔ تکنیکی اور قوتی لحاظ سے مضبوط انسانوں یا قبیلوں نے کمزور کو زیر کر کے ان کا  مختلف طرح سے استحصال شروع کیا ۔ جس میں لسانی، جنسی، استحصال شامل ہے۔

اور اس میں طبقاتی استحصال نمایاں ہے۔ استحصال کی ان تمام شکلوں میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ اس عمل میں ایک انسان کا حق مارا جاتا ہے اور دوسرا شخص نا جائز فائدہ اٹھاتا ہے۔اس استحصال کے بعد جا کر غلامی اور آزادی کے نظریات نے جنم لیا۔
محروم معاشروں میں فکر کو غیر فطری طریقہ سے جامد کیا جاتا ہے، چنانچہ جب فکر جامد ہو جاتی ہے تو انسان وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے کسی کونے کھدرے میں جا کر  بسنے کو ترجیح دیتا ہے، جہاں اْس کی اپنی ایک الگ ہی دنیا قائم ہوجاتی ہے، جس میں بعض اوقات وہ کسی قسم کی ترمیم  یا درستگی برداشت کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوتا۔

انسان کا یہ غیر فطرتی اور خود ساختہ رویہ معاشرے کے لیے علمی و اخلاقی اضمحلال کا باعث بنتا ہے۔ انسان کے اس رویہ سے مطلق خود غرضی اور عدم برداشت کی ایک ایسی فضا قائم ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ پھر زبردست اخلاقی پسماندگی   کی شکل میں ہوتاہے۔
جب فکری طور ترقی ہوئی تو جمہوری نظام کی بنیاد  رکھی گئی۔ جدید ممالک اور ریاستیں وجود میں آئیں، اس امید کے ساتھ کہ یہ سیاسی اکائیاں انسانی آزادیوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ تحفظ اور ترقی کے مواقع  فراہم کریں گی۔

بہت ساری ریاستیں اس میں کسی حد تک کامیاب ہوئیں ، لیکن مکمل انسانی آزادی کہیں  بھی   میسر نہیں ہے۔ انسانی آزادی کا حصول اور انسانی آزادی کا قیام ایک مسلسل عمل ہے، جو نسبتاً ترقی یافتہ معاشروں میں بھی جاری رہتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ انسانی آزادی کو کسی مخصوص ریا ست میں شامل  یا خارج ہونے سے جوڑنا خودفریبی جیسا ہے۔ کیونکہ، ریاستوں یا  ملکوں کا بننا، پھیلنا یا سکڑنا ایک ایسا سیاسی عمل ہے کہ جس میں طاقتور قوتیں اپنے مفادکے حصول کے لئے شریک ہوتی ہیں۔

اسی لئے دیکھا گیا ہے کہ عام انسان ایک ملک سے نکل  کر دوسرے ملک میں بھی استحصالی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہیں۔ اور ایسی سیکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
تاریخ آج بھی گواہ ہے کہ سماجی انصاف اور برابری کے نام پر  چلنے والی تحریکوں کے بطن سے  ایسے جابر،ظالم، خونخوار درندوں نے جنم لیا ہے جنہوں نے اپنی روح کی تسکین اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے کئی تشکیل شدہ معاشروں میں بسنے والے انسانوں کا بدترین استحصال کیا، لاکھوں کروڑوں افراد  کو موت کے گھاٹ اُتارا۔

بادشاہت کی جگہ منتخب نمائندوں اور غیر منتخب شاہی افسران نے لے لی ہے۔ مظالم اور استحصال کا سلسلہ اُسی طرح جاری ہے۔ حاکم بدلتے گئے۔ ظالم بدلتے گئے۔ جو کل کے مظلوم تھے وہ آج کے ظالم بن  چکے ہیں۔ آزادی کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔
 آزادی کی راہ میں ملک اور ریاست سے بڑی رکاوٹ معاشرہ  ہے۔ اسی لئے ملک اور ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرےکو انصاف پر مبنی نظام کے ذریعے ایک ایسی سطح پر پہنچائے جہاں لوگ آزادی کا احساس لئے بنیادی ضروریات پوری کرنے اور انفرادی اور اجتماعی ترقی حاصل کرنے کے قابل بن سکیں۔


 آزادی کی فراہمی ریاست ہی کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ اس میں معاشرے کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ آزادی کے حصول کی جدوجہد میں رُکاوٹ صرف ریاست اور حکومتوں  کو ہی مورد الزام ٹہرایا جاتارہا  ہے۔ اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سماج اور اس میں بسنے والے افراد کی کوئی ذمہ داری بنتی ہی نہیں ہے جبکہ ریاست کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا۔

چونکہ سماج میں موجود لوگ ایک دوسرے کی آزادیوں کو سلب کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اس لئے انسانی آزادیوں کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے سماجی سطح پر شعور کی بیداری اور دیگر عملی اقدامات اُٹھانا ناگزیر ہے۔
اگر کوئی ملک یا کوئی ریاست یا کوئی بھی سماج اپنے حدود میں رہنے والے افراد کو یہ آزادیاں نہیں دے سکتی تو پھر آزادی کے نعروں اور دعووں پر سوال اُٹھتا ہے اور اُٹھنا بھی چاہیے۔

سوال نہیں اُٹھیں گے تو دُرسگتی کا عمل کیسے شروع ہوگا؟ غالب قوتوں کو جوابدہ کس طرح  ٹہرایا جائے گا؟ ترقی کیسےممکن  ہوگی؟
سوال اٹھتا ہے اور اٹھنا بھی چاہیے میں بھی سوالات اُٹھاتا ہوں اور اُٹھاتا رہوں گا۔
لیکن صرف سوال اُٹھانے اور غالب ہونے کے لئے  جدوجہد اور دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر خاندانی، گروہی یا انفرادی طاقت اور قوت کے حصول کی سیاست کرنے میں فرق ہے۔

اور اس فرق کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔
 ایک  وہ وقت تھا کہ جب ہم نے انگریزوں سے ملک کے استخلاص کےلیے کوششیں کیں تھیں ؛جس کی یاد میں ہم یہ دن منارہےہیں اورایک وقت یہ ہے کہ ہمارا ملک شدید ترین  بحران  میں سے گزر رہاہے، فرقہ پرست  اور دیگر ملک دشمن عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے نہ تو قانون کا خیال کر رہے ہیں  اور نہ ہی انسانیت کے اصولوں کو مان رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو ہر ممکن نقصان پہنچا نےپرتلےہوئے ہیں ۔


ہمارا صرف رسمی طور پر جشنِ آزادی منانا  کہ ہم  سبز جھنڈے اپنے گھر کی چھت پر لہرا دیں اور سکوٹر کا سائیلنسر اتار کر اور بازاروں میں باجے بجا کر  یا کچھ مہذب انداز میں کسی تقریب میں قومی ترانے کی دھن بجا کر پرچم کو سلامی دیں، قومی ترانہ گائیں، ایک دوسرے کو مبارک باد دیں اور اسکول کے بچوں کو سبز لباس پہنائیں وغیرہ شاید  یہ سب بےفائدہ اور بے مقصد عمل ہے۔


ہمارا  جشن ِآزادی منانے کا یہ طریقہ کار نہ تو ہمارے قومی جذبات کو پختگی عطا کرسکتا ہے اور نہ  ہی جدو جہدآزادی کے شہیدوں تک کسی عقیدت و احترام کا جذبہ بیدار کرنے میں مددگارثابت ہو سکتاہے اور نہ ہی  ہمیں تحریک آزادی  کی قربانیوں کا کوئی احساس دلاسکتا ہے، انگریزوں اور ہندوَوں کے مظالم کی داستان سامنے لائے بغیر آزادی کی اس  قدر قیمت کا احساس  دلانا ناممکن ہے، حُب الوطنی اور  پاکستانیت کے جذبات اس وقت تک ماند رہیں گے جب تک تحریک آزادی کی مکمل داستان بلاکم و کاست موجود نہ ہو اور آنے والی نسل کو تحریک آزادی کی قربانیوں  اور جو مسائل اور تکالیف  ہمارے اباواجداد نے برداشت کی انکے بارے میں نہ بتایا جائے۔

ہمیں آزادی کے مفہوّ م کو  حقیقی طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ تا کہ آنے والی نسل فلفسہ آزادی کو سمجھ سکیں اور ان میں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :