ہمارا نظام تعلیم

جمعہ 8 اکتوبر 2021

Kashif Baloch

کاشف بلوچ

تعلیم  اپنے  معنوں میں وہ شے ہے  کہ جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف کو  ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل  کیا جاتا ہے۔  تکنیکی معنوں میں تعلیم  سے مراد  ایک  رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے؛ عموماً  مدرسہ،اسکول  ، کالج یا یونیورسٹی  میں حاصل کی جانے والی تربیت کو تعلیم کہا جاتا ہے۔


تعلیم کا مقصد جو آنے والی نسلوں کی تیاری، مستقبل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی ،نت نئی ایجادات و کاروبار، معاشی و اقتصادی و خوشحالی، ایک مضبوط اور ہم آہنگ قوم کی ضمانت اور بنیاد  ہے ، تعلیم  کو صرف اور صرف نوکری پیشہ   افراد کو پیدا کرنے تک محدود کر دیا گیاہے۔

(جاری ہے)

ہمارےہاں امریکی، یورپی ،جاپانی، چینی کامیاب لوگوں کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر  غور کیا، کبھی سوچا ، کبھی تحقیق کی کہ ان میں سے کتنے لوگ ہیں جو نوکری پیشہ تھے یا ہیں، کتنے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی کاروبار کا  آغاز ایک معمولی سی دوکان یا ٹھیلے سے کیا ؟
مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے، بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں نوجوان نسل کے مسائل کا حل یا ان کے مستقبل کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کی بحث حکومتی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتی ۔بدقسمتی سے ہمارے پیارے  ملک میں تعلیم کے حقیقی مقاصد کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ناقص پالیسیوں سے تعلیم مہنگی اور غریب کی پہنچ سے دور  تھی اور اب مزید دور ہوتی جا رہی ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس  میں موجود تعلیم یافتہ افراد     کی شرح  پر ہوتا  ہے۔

  یہ ہی وجہ ہے کہ  ہر معاشرے میں تعلیم کی ترقی کیلئے نت  نئی  کوششیں کی جاتی  ہیں. ماضی میں تعلیم کی ترقی کیلئے مفکرین اور علماء نے بہت کوششیں کی ہیں اور ان کی بدولت ماضی میں ہماری درسگاہوں اور اساتذہ کا اپنا مقام تھا. استاد کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے.استاد کی اہمیت اور ان کا مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون مددگار ثابت ہوتا ہے.استاد ہر ایک طالب علم کو ویسے ہی سنوارتا ہے جیسے ایک سونار دھات کے ٹکڑے کو سنوارتا ہے۔

ہماری   اسلامی تعلیمات میں استاد کی عزت وتکریم کا جا بجا حکم ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا"انما بعثت معلما"کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اس بات کی  واضح دلیل ہے کہ استاد کا مقام ومرتبہ نہایت بلند وبالا ہے.
تعلیمی میدان میں طلباء کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ  انکے حل کے بغیر نظام تعلیم کسی طور بہتر انداز میں چل ہی نہیں سکتا۔

آئے روز طلباء اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلتے ہیں، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ طلباء کے مسائل کو بغیر کسی تاخیر کے اولین ترجیحات پر حل کیا جائے ۔ لیکن اس حکومت کے دور میں جو کہ مسلسل دھرنوں کے نتیجے میں  وجود میں  آئی جب تک  دھرنا یہ احتجاج نہ کیا جائے  یہ حکومت بد قسمتی سے اس کو مسئلہ تصور ہی نہیں کرتے۔ کہیں یونیورسٹییوں میں  طالبات کو ہراسمنٹ کے مسائل ہیں تو کہیں طلباء فیسوں میں بے جا اضافے سے پریشاں ہیں۔

کہیں انٹری ٹیسٹ کے مسائل ہیں تو کہیں جامعات میں اساتذہ کی اندرونی سیاست طلباء کے مستقبل کے آڑے آتی ہے۔
انتہائی  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے  نظام تعلیم کا ایسا بیڑا غرق ہوا ہے کہ  گزشتہ  کچھ عشروں  سے بنیادی سہولتوں کا فقدان ، غیر ضروری نصاب، اقربا پروری،غیر مساوی سلوک، کرپشن، رشوت خوری  اور انتظامیہ کے طرف سے ہراسمنٹ نے ہمارے تعلیمی  اداروں  کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے.
طلباء کو  پریکٹیکل کروانے کی  بجائے  رٹنے لگانے اور گریڈنگ کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔

ہمارا نظام تعلیم حکومتوں کی ناقص پالیسوں  اور تعلیم کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی وجہ سے بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے. پاکستان میں طبقاتی بنیاد پر تعلیمی بجٹ  کی تقسیم  ہوتی ہے جس وجہ سے  ہمارے ملک میں شرح تعلیم کسی ترقی  پزیر ملک کی نسبت کم ہے۔
 ہمیں چاہیے کہ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے   تعلیمی اداروں کو ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے پاک کیا جائے، تعلیمی اداروں میں این جی اوز  کے ایجنڈوں پر نت نئے بے مقصد پروگرامز کو بند کیا جائے۔

اس کی بجائے طلباء میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے ۔ اورسکول ، کالکجز، یونیورسٹیز  تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم و تدریس اور تحقیق بامقصد، بہتر اور معیاری   ایسی  ہونی چاہیے کہ جس سے طلبہ و طالبات کے علم و شعور، صلاحیت کار اور فن میں اضافہ ہو۔طلباء کی ہر طرح کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے انہیں ضروری رہنمائی اور ماحول میسر  کرنا چاہیے۔ تب ہی ہماری نئی نسل زمانے کے جدید علوم و فنون  اور تقاضو ں سے آگاہ ہوکہ ملک  و قوم کی بہتر خدمت کی راہوں  پر گامزن ہو سکے گی۔ تا کہ تعلیمی اداروں کی تعلیم و تربیت  ہمارے نوجوانوں کے لئے روزگار کے بہتر مواقع تلاش کرنے میں معاون ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :