اسلام میں خدمتِ خلق

منگل 18 مئی 2021

Kashif Baloch

کاشف بلوچ

جیسا کہ قرآن  کریم میں سورۃ الذاریات میں  اللہ تعالی  نےانسان کی تخلیق کا مقص اپنی عبادت بیان کیا ہے۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔’’ وہاں عبادت میں خدمت خلق بھی شامل ہے۔
 نبی اکرمﷺ نے فرمایا،ساری مخلوق اﷲ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے۔


 تقویٰ تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو مار دیا جائے۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھا جائے، اپنے ہر عمل کو اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ کیا جائے، تب ہی اس کو اچھے طریقے سے نبھایا جاسکتا اور اس کے فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔

(جاری ہے)


اصطلاح شرع میں رضائے الٰہی کا حصول کے لئے ہر جائز  کام  میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعاون کرنا ہی خدمتِ خلق کہلاتاہے۔

قرآن و حدیث کے مطالعے سے  معلوم پڑتا ہے کہ خدمتِ خلق نہ صرف اچھے مُعاشرے کی تشکیل کا اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ قُرب الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی کامیابی کاوسیلہ بھی ہے ۔عموماًر لوگ صرف  (مادی) مالی امداد کو ہی خدمتِ خلق سمجھ لیتے ہیں جبکہ  اس کے علاوہ کسی کی یتیم کی کفالت کرنا ،کسی کو علم و ہنر سکھانا ،لوگوں کو مفید مشورہ دینا ، بھٹکے ہوئے مسافر کودرست راہ دکھانا، کسی کی تعلیم کے حصول کے لیے وسیلہ  بننا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والے ادارے قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور اس طرح کےکئی دوسرےکام بھی خدمت خلق کی مختلف اقسام میں آتے  ہیں جن پر  ہر انسان اپنی صلاحیتوں کے مطابق چل سکتاہے۔

اسکا یہ مطلب ہے کہ خدمت خلق کے سفر پر چلنے  کیلئے کسی لیڈر یا تحریک کے بجائے صرف ایک مقدس جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ  ہی وہ چیز ہے جو قُربِ الہی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’دین خیر خواہی کانام ہے۔‘‘ اسی لیے  خیر خواہی ایک مقدس جذبہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ جذبۂ خیر خواہی جب درجہ کمال تک پہنچتاہے تو اعمال سے اس کااظہار مختلف صورتوں میں ہونے لگتاہے،جسکو لوگوں کی نظریں دیکھتی ہیں اور انکی  زبانیں دعاؤں سے نوازنا شروع کر دیتی ہیں۔

نتیجتاًانسان بعض اوقات اس مقام پر فائز ہو جاتاہے جہاں دوسرے لوگ برسوں کی عبادات و ریاضت کے بعد بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔  ایک بدکار عورت کا پیاسے کتے کو پانی پلاکر جنت میں جانے کا واقعہ اس حقیقت کی عمدہ مثال ہے۔
 قابل ذکر بات یہ ہے کہ دین ِاسلام میں خدمت خلق جوکہ جذبۂ خیر خواہی کا اہم ترین نتیجہ ہے،عظیم الشان عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور اسکا بہت  اجر ہے۔

قرآن مجید میں جہاں تخلیقِ انسانی کا مقصد عبادت کو قرار دیاگیاہے، وہاں عبادت میں خدمتِ خلق بھی داخل ہے، اس لئے دیگر عبادات  کی طرح یہاں بھی دنیاوی اغراض کی بجائے اخروی ا غراض پر ہی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ سخی ترین شخص کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالنے کی وعیدا حادیث  میں موجود ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ خدمتِ خلق کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دنیاوی مفادات کو اسلام ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہے؛ اسلئے کہ نفع رساں چیزوں کے زمین میں جم جانے اور مضبو ط ہوجانے کی بات قرآن مجید میں موجود ہے:’’  اور جو لوگوں کو فائدہ دے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے ۔

‘‘ (سورہ الرعد:۱۷)دین ِ اسلام مومنین کو اس بات کا پابند  کرتاہے کہ وہ ہرکام رضائے الٰہی کے حصول کے لئےہی  کریں ؛خواہ نتائج جو بھی ہوں۔
خدمتِ خلق کسی معاشرے کی ضرورت بھی ہے ، اگر اس سےراہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی گئی تو  معاشرہ  بہت سے مسائل و مصائب میں گھِر جاتاہے۔ اسی لئےجس معاشرے میں خدمتِ خلق کا رواج نہ ہو وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ تو دُور انسانی معاشرہ کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہو سکتا،یہ بھی ممکن ہےآپ اس سےاتفاق نہ کریں یا  کسی کواس بات سے  اختلاف  ہو۔


  اسلام نےایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے، جو ذاتی مُفادات اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے دوسروں کے مفادات و خواہشات سے کھیلتے ہیں اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے جو کسی معاشرےکے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا در رکھتے  ہوئے مستحق افراد کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش  میں ّمصروف رہتے ہیں، اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہتے ہیں اور مشکلات میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں ۔

اسلام میں ایسے لوگوں کے لیے بہت بلند درجہ اور مقام ہے ۔
 اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے  ارشاد فرمایا کہ: ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنزالعمال)
 پڑوسیوں کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا معاملہ ہو ، غرباء کی امداد کا مسئلہ ہو یا انسانی حقوق کے دوسرے مراحل ہوں  اسلام نے بلا تفریق سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین ِ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابندکیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کریں، حالانکہ دینِ اسلام  میں  بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی  گئی ہے، اورمومنین کو سب کیلئے یعنی تمام عالم انسانیت کیلئے خیر خواہی کا پابند بنایاہے۔


دین کی تبلیغ کا حکم بھی خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہی دیا گیا ہے، تاکہ انسانیت کو جہنم  میں جانے سے بچایا جاسکے۔ حتی کہ جب تک غیر مسلموں کی طرف سے صریح دشمنی کا اظہار نہ ہو، مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آئیں۔
 قرآن مجید کی سورہ نساء میں مشرک قیدیوں کو کھانا کھلانے والوں کی تعریف موجود ہے  جس سے اسلام کے خدمت خلق کے دائرۂ کار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

  فرامین نبویؐ کا ایک  بڑاحصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق  پر مشتمل ہے،
 (۱)    جو رحم نہیں کرتا ہے اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔  (مسلم شریف)، (۲) اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے  جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددکرتاہے(مسلم شریف)، (۳)  تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے(مسلم شریف)، (۴)  تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا(ترمذی شریف)
 پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ  والہ  واصحابہ وسلم کی عملی زندگی بھی خدمت خلق سے لبریز ہے۔

اعلان نبوت سے قبل بھی آپ   صلی اللہ علیہ  والہ  واصحابہ وسلم خدمت خلق میں خوب مشہور تھے،اعلان  نبوت کے بعد تو خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپؐ  صلی اللہ علیہ  والہ  واصحابہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو ترجیحی بنیاد پرمعاشرے میں معاشی استحکام کے لئےاہل ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی ۔


لہٰذافرقہ پرستی اوراخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ  دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کررہے ہیں، لیکن مزید بہتری لانے کی اشد  ضرورت ہے، نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ عملی مشق کرائی جانی چاہیں، تاکہ آنے والی نئی نسلوں میں بھی خدمت  کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :