پاکستان میں خواندگی

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Kashif Baloch

کاشف بلوچ

  ہمارے ملک پاکستان میں  خواندہ کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے  کہ وہ انسان  جو اخبار پڑھ سکے اور کسی بھی زبان میں سادہ سا خط تحریر کرسکتا ہو وہ خواندہ یعنی پڑھا لکھ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم 15-2014 کے ایک سروے کے مطابق ایسے افراد کی تعداد   60 فیصد تھی۔
 سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہمیشہ سے جاری ہے۔ہمیں کئی مسلمان سائنسدانوں کے نام نمایاں نظرآتے ہیں، جن کی پوری دنیاتعریف کرتی ہے اور انکی شکرگزار ہے۔

جن  میں محمد بن موسیٰ الخوارزمی، ابن سینا، عمر خیام، البیرونی، ابن خلدون اور ابن الہیثم قابلِ ذکر ہیں۔ محمد بن زکریارازی دنیا کے پہلے طبیب جنہوں نےتپ دق (ٹی بی) کا علاج اورچیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا۔ریاضی میں الجبرا ءخصوصی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہی ہے۔

(جاری ہے)

الجبرا ءکے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی  اور اہم ایجاد علم مثلثات (ٹرگنومیٹری) ہے جس کی بنیاد پر کئی علوم اور اشیاء ایجاد کی گئی۔

حکم بن ہاشم (ابن المقنع) نے ایک مصنوعی چاند بنایا تھا جو ماہ نخشب کے نام سے مشہور تھا۔  اندلس (یعنی: اسپین) کے ایک مسلم سائنسدان عباس المشہور ابوالقاسم بن فرناس نے 3  چیزیں ایجاد کرکے دنیا کو  حیران کر دیا۔ عینک کا شیشہ، گھڑی ، اور ایک ایسی  مشین جو ہوا میں اُڑ سکتی تھی۔  ابن سینا کے استاد ابوالحسن نے پہلی دوربین ایجاد کی تھی۔ حسن الزاح نے راکٹ سازی کی طرف توجہ دی اور اس میں تارپیڈو کا اضافہ کیا۔


عمر خیام نے شمسی کیلنڈر مرتب کیا۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات (ٹائم کیپنگ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدان نے فراہم کی۔ عباس بن فرناس وہ عظیم سائنسدان ہے، جس نے دنیا کا سب سے پہلا ’’ہوائی جہاز‘‘ بناکر اڑایا۔ قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردش کے حساب کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے واضح کیا۔

ریاضی، الجبراء اور جیومیٹری کے حوالے سے الخوارزمی نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ الخوارزمی  کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی ء تک یورپ کی یونیورسٹییز میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی تھی۔ الخوارزمی نے بہت سی اہم تصانیف تھیں،جن میں ایک ’’السند ہند‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کتاب الجبرو المقابلہ میں انہوں نے لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور معاملات کے حل کے لیے تصنیف کیاجیسے میراث، وصیت، تقسیم، تجارت، خریدو فروخت، کرنسی کا تبادلہ، کرایہ، عملی طور پر زمین کا قیاس (ناپ)، دائرہ اور دائرہ کے قطر کا قیاس، بعض دیگر اجسام کا حساب جیسے ثلاثہ اور مخروط وغیرہ۔

وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے علمِ حساب اور علمِ جبر کو الگ الگ کیا اور جبر کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ طبعیات اور حرکیات ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی طبعیات کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ابن الہیثم طبعیات کے دامن کو علم سے بھردیا۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، ہندسیات ،فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔

مسلمانوں کی دیگر صنعتی ایجادات میں بارود، قطب نما، زیتون کا تیل، عرق گلاب، خوشبوئیں، عطر سازی،ا دویہ سازی، معدنی وسائل میں ترقی، پارچہ بافی، صابن سازی اورشیشہ سازی شامل ہیں۔
تعلیم، نظامِ زندگی کا احاطہ کرتی ہے،کسی معاشرے میں شعورکو  اُجاگر کرنے اور بچوں کی اچھی تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح ِخواندگی سے ہی لگایا جاتا ہے۔

تقریباْ 3سال قبل فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن تعلیم نے شرحِ خواندگی کے حوالے سے  ایک  10سالہ رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق پاکستان خطے کے 9ممالک میں سے صرف افغانستان سے بہتر ہے۔
عموماْ دینی اور دنیاوی تعلیم کو الگ الگ ہی دیکھا جاتا رہاہے۔ لیکن دونوں کی ہی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں رائج تعلی نظام کے علاوہ جو دوسرا نظامِ تعلیم ہے، اس کے بھی دوہرے معیارِ ہیں۔

ایک تو وہ جو سرکاری سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے  اور دوسرا پرائیویٹ سکولوں میں۔ سرکاری سکولوں میں معیارِ تعلیم کا حال اتنا فرسودہ ہے کہ نہ  تووہاں قابل اساتذہ ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی نصاب، سالہا سال پرانا نصاب آج بھی بچوں کو پڑھایا جارہا ہے جبکہ دیگر بنیادی سہولتوں کابھی فقدان ہے۔گزشتہ دنوں حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کا اعلان تو کر دیا ہے۔

لیکن اسی اعلان کے ساتھ ہی ملک میں پرائیوٹ سکول مافیہ بھی حرکت میں آ گیا ہے اور حکومت کے اس احسن  اقدام  کے خلاف منظم مہم جاری کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو چاہیے کہ  ایسے تمام پرائیوٹ سکولوں کی رجسٹڑیشن منسوخ کر دیں۔ جو لوگ صاحب حیثیت نہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو پرائیو یٹ اسکولوں میں تعلیم دلوانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اور اس کی وجہ سے انکو بے بہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


اگر پرائیویٹ سکولوں کو دیکھا جائے تو  اس میں بھی مختلف نصاب پڑھائے جاتے ہیں، ایک  صوبائی نظامِ تعلیم کے مطابق اور دوسرا ( مغربی ایجوکیشن سسٹم)یا  کیمبرج سسٹم کے تحت۔پنجاب میں اب قدرے چیزیں بہتری کی طرف جا رہیں ہیں اور حالات کچھ بہتر ہیں۔اور اگر  سندھ کی بات کی جائے تو وہاں اب بھی سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی وہ کتابیں پڑھائی جارہی ہیں جو آج سے کئی دہائیاں  پہلے بھی پڑھائی جارہی تھیں۔

ان حالات کو دیکھ کر بچوں کے  والدین  بچوں کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کا بچہ  معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔
بچے کی پہلی درسگاہ اسکی ماں کو گود ہوتی ہے اس کے بعد بچہ گھر سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے، جس سے اسکی بنیاد بنتی ہے۔ اس کے بعد بچے کوسکول میں داخل کروادیا جاتا ہے، جہاں وہ نرسری سے  پانچویں جماعت تک پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کرتا ہے۔

پرائمری تعلیم کسی بھی بچے کی شخصیت اور شعور کےلیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے بہت متجسس ہوتے ہیں۔ لہٰذاان کے تجسس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہیے۔
دنیا بھر میں پرائمری ایجوکیشن  کو بہت زیادہ  اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ پرائمری تعلیم  پر ہی بچے کے مستقبل کی بنیادرکھی جاتی ہے۔اگر بنیاد مضبوط ہوگی تو اس پر عمارت کھڑی کرنا آسان ہوگا۔

اسی لیے تعلیم کے طریقہ کار، سہولتوں اور اساتذہ کے انتخاب تک ہر مرحلے کو بہت زیادہ  اہمیت دی جاتی ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھار کر انکو ملکی ترقی کی دوڑ میں شامل کیا  جاسکے۔
ثانوی تعلیم کاکسی بھی طالب علم کی سمت متعین کرنے میں  بہت  اہم کردار  ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ تعلیمی اور عملی زندگی میں بچوں کو STEMلرننگ میں مہارت دِلوائیں۔

اول تو والدین کو STEM ایجوکیشن کے بارے میں معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ سٹم لرننگ(stem)پر توجہ دی جا رہی ہے جو کہ بنیادی پرسائنس،ٹیکنالوجی ،انجینئرنگ،میتھا میٹکس اور آرٹس کے شعبوں میں طلباءمیں پائی جانے والی صلاحیتوں کو ابتداءسے ہی نکھارنے کا طریقہ ہے ۔ پلے گروپ سے آٹھویں جماعت تک طلبا اپنے ریگولر نصاب کو بھی پڑھیں گے اورانہیں سٹم(stem) سرگرمیوں میں بھی مصروف رکھا جائے گا تاکہ طلبا اپنے شوق کے شعبوں کو ابتداءسے ہی سمجھ سکیں ۔

اب تقریباً دنیا بھر میں تمام ماڈرن ایجو کیشن سسٹم میں سٹم لرننگ(stem)کا کردار ایک ریڑھ کی ہڈی کی ماند نہایت  اہم ہو چکا ہے ۔
 جن بچوں میں ماحول کو سمجھنے کی اچھی صلاحیتیں ہوتی ہیں، وہ STEMلرننگ میں باقی  بچوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔STEM وہ مہارتیں ہیں جو بچوں کو مستقبل میں نت نئی ایجادات اور آئیڈیاز پیش کرنے میں مدد کریں گی اور ملک کو نئےتخلیق کار،  موجد، لیڈرز اورترقی پسند شہری ملیں گے، جو ملک وقوم کی بہتری کیلئے کام کر سکیں۔


طلباء  کو چاہیے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے لیے روایتی شعبوں سے ہٹ کر کسی ایسے شعبے میں تعلیم حاصل کریں، جن کی مستقبل میں مانگ اور روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہوں گے۔ بہت سی مقامی یونیورسٹیاں بھی ایسے بیچلرز اور ماسٹرز پروگرام پیش کررہی ہیں جبکہ اس ضمن میں نامور غیرملکی یونیورسٹیوں کے آن لائن کورسز  بلکل مفت بھی دستیاب ہیں ۔

حکومت پنجاب اس کے علاوہ بہت سی موبائل ایپس اور سوفٹ ویئرز بھی طالب علموں کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا، شرح خواندگی میں بہتری لانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ 4سے 5سال کے دوران مصنوعی ذہانت (AI)، مشین لرننگ اور ڈیٹا میں مہارت رکھنے والے افراد کے لیے نوکریوں کے سب سے زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔


تعلیم وہ روشنی ہے، جو اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں صنفی مساوات کا لازمی خیال رکھا جائے تاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی باشعور اور پڑھی لکھی ہوں تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ کرسکیں اور نسلوں کی بھی بہتر پرورش ہوسکے۔ انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اس کی تربیت بچے کے اچھے کردار کی بنیاد بنتی ہے۔

بچے کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور وہ اس کے طور طریقے، عادات اور دلچسپیوں کو مستعار لیتا ہے۔ ماں بچے کو اچھے بُرے کی تمیز اور صحیح غلط کی پہچان سکھاتی ہے۔
ذہنی پسماندگی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے صورتحال میں بہتری آئی ہے اور اب لوگوں کو احساس ہوچکا ہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

ہر انسان میں (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔
تعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر بلکہ اپنے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ آج دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے، جو اُس کے ساتھ نہیں چل پاتا، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ناصرف معیارِ تعلیم بہتر ہو بلکہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :