میرے محافظ ہی میرے قاتل

اتوار 28 ستمبر 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے،جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
جب شہروں ، شہروں فسادات پنپنے لگے اور تاریخ اسلام کے مطابق حضرت عمر بن خطاب  کے دورِ خلافت میں پولیس کا محکمہ وقوع پزیر ہوا۔یہ محکمہ شہروں میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لیئے وجود میں لایا گیا۔

مگر افسوس پاکستان سمیت کئی ملکوں میں آج اسی ادارے کو نہ صرف برے القابات سے جانا جاتا ہے بلکہ شرفاء مظالم سہنے کے باوجود انصاف حاصل کرنے کی غرض سے تھانوں کو منہ نہیں کرتے۔آخر کیا وجوہات ہیں کہ مصیبت زدہ لوگ بھی نہائت پڑھے لکھے افسران کے منہ نہیں لگنا چاہتے؟؟؟
جب اس بات کی تحقیق کی گئی تو بے تحاشہ وجوہات میری نظر سے گزریں۔

(جاری ہے)

جوں جوں میں اس کھوج کی گہرائی میں قدم رکھتا گیا تُوں تُوں مجھے معلوم ہوا کہ بندئہ خدا یہ تھانے جو ہماری حفاظت کے لیئے شہروں کے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں ان تھانوں میں تقرری کی غرض سے افسران بھی لاکھوں روپے کی رشوت کا لین دین کرتے ہیں۔

گویا جس علاقے میں جرم کی بھرمار، وہیں بھاری بھرکم رقم کا انتظام۔یہ سنتے ہی میری عقل دنگ رہ گئی گویا اک لمحے کے لیے قومہ میں ہی جا پڑا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے حرام مال کو نہائت نا پسند فرمایا ہے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی احادیث کے مطابق رشوت لینے اور دینے والے پہ نہ صرف اللہ رب العزت کی لعنت، کفر کے نزدیک ترین درجہ، حلال مال بھی حرام اور جہنمی قرار دیا گیا۔

میری پریشانی کچھ اور اس لیے بڑھ گئی کیونکہ جب مرد و زن کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے تو ان سے انصاف پر قائم رہنے کی غرض سے قرآنِ کریم پہ حلف لیا جاتا ہے ۔ مگر کچھ عرصہ میں ہی یہ لوگ قسمیں بھلا بیٹھتے ہیں اور ظلم کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ یقینا یہ ظلم معصوم رعایا پر نہیں بلکہ خد اپنی ذات پہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کا خمیازہ انہیں عنقریب بھگتنا پڑے گا۔

یہاں یہ ضروری کہنا سمجھوں گا کبھی بھرتیوں کے لیے لاکھوں کی رشوت اور کبھی مختلف تھانوں میں تقرری کے لیے۔
تو جناب رشوت کے ابتدائی ذمہ داران تو یہی قانون کے رکھوالے ہیں۔اس کاروبارکی تکمیل کے فوراً بعد ہی غریب عوام کی پریشانیوں کا مرحلا شروع ہو جاتا ہے۔پہلے بات کرتے ہیں بازار حسن کی جو معاشرتی برائیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور بیشتر گناہ بھی بازار حسن سے ہی جنم لیتے ہیں۔

نہ صرف یہ عزت کے رکھوالے بازار حسن سے کثیر رقم رشوت کے طور پر بٹورتے ہیں بلکہ وہیں پہ جانے والے بھنوروں کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں رہنے دیتے غرض یہ کہ رونقِ بازار بنی بیٹھی تتلیاں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑتیں اور اپنے گاہکوں کو ڈرا دھمکا کر رقم لوٹ لیتی ہیں۔گویا یہ مشہور محاورہ سچ ثابت ہو جاتا ہے ” کھایا ، پیا کچھ نہیں گلاس ٹوٹا بارہ آنے “ اب اس رقم کا ایک حصہ تھانہ بازارِ حسن کو بر وقت ادا کر دیا جاتا ہے تاکہ راہ گناہ بند نہ ہو اور پولیس کا ڈر باقی نہ رہے۔


بات چل نکلی ہے اب دور تلک جائے گی بازارِ حسن کا تزکرہ جو چھڑ گیا اب ممکن ہی نہیں مہ خوانوں کا ذکر نہ ہو۔ شراب کی اقسام پہ نظر دوڑائیں تو بے تحاشہ نام سننے کو ملتے ہیں جس کے استعمال سے لاکھوں گھروں کا سکون برباد ہو چکا اور کروڑوں گھر تباہی کے دہانے پر آن پہنچے ہیں۔شہر کے عالیشان ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ اشرافیہ بھی شراب کا کاروبار بڑی بہادری سے کر رہے ہیں اور ہماری جانوں کے رکھوالے بجائے منشیات کی روک تھام کریں بلکہ ان محافظوں نے تو صرف اور صرف منشیات خریدنے والوں کو ہی دھرنے کا سوچ رکھا ہے ۔

ادھر منشیات خرید کر چند قدم آگے بڑھے ادھر قانون کے رکھوالے اپنا فرض نبھانے آن پہنچے اور لین دین کا قصہ شروع ہوا۔ اگر تو ہو گیا مک مکا تو بہت بہتر وگرنہ حوالات ہوا آپکا مقدر، لگے عدالتوں کے چکر وکلاء کی فیس اور ذلالت وکھری۔
اسی کے برعکس پولیس کو شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پہ تعینات کیا جاتا ہے مگر افسوس اس دوران شرفاء کو روک روک کر تنگ کرنا ہماری عزت دار پولیس کا پیشہ بن چکا ہے۔

چوروں اور لٹیروں کے ہتھے چڑھ جانے کے بعد اگر پولیس افسران کے پاس رہزنی کی رپورٹ درج کروانے کی غرض سے جایا جائے تو چکر لگوا لگوا کر گھن چکر بنا دیتے ہیں کہ شائد یہ کہنا غلط نہ ہو گا۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
جب فساد پھیلانے والے مشروبات کا ذکر ہو ہی گیا تو کیوں نہ وڈیرہ شاہی کی بات بھی کرتے چلیں۔ جبرو تشدد، زناء، بھتہ گیری،بم بلاسٹنگ، ٹارگٹ کلنگ اور اسی طرح کی بہت ساری خبریں ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات کی زینت بنی بیٹھی ہیں۔

دل دہلا دینے والی ان خبروں کی تفصیلات میں جایا جائے تو ہر ہر ظلم کے پیچھے وڈیروں کا نام سر فہرست ہوتا ہے مگر افسوس یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے غریبوں اور لاچاروں پرتو بڑی بے رحمی سے ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن وڈیروں کی ظلم و ذیادتی کے باوجود وڈیروں کی ہی حفاظت کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا اگر یہ ایک ادارہ جسے ہم پولیس کے نام سے جانتے ہیں قرآن پاک پہ دیے گئے حلف ، قسموں اور وعدوں کو پہچانتے ہوئے اپنے فرائض کو ایمانداری کے ساتھ انجام دینا شروع کر دیں تو وہ دن دور نہیں جب دنیا جنت سی ہو جائے گی ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :