ہماری حقیقت

اتوار 13 فروری 2022

Kashif Mehmood Mughal

کاشف محمود مغل

جیسا کہ اگر ملک میں بدلتے ہوئے حالات برائی جرائم اور ناانصافی کی بات کی جائے تو اس میں خاصا اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔اور ہم سب میں سے اکثر لوگ اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔شاید جس وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں جس کی بہت سی مثالیں ہمارے معاشرے میں روزملتی ہیں اگر کوئی ایک شخص اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات برائی جرائم یا نا انصافی پر بولتا ہے یا اس پر بحث کرتا ہے تو اکثرمعاشرے میں موجود برے اور جرائم پیشہ لوگ اسے ہی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور نا کردہ گناہوں کی سزا بھی اسے ہی دی جاتی ہے کہ اس نے انصاف اور سچ کی بات کیوں کی اور اسے بھی معاشرے میں دوسرں جیسا بننے پر مجبور کر دیا جاتاہے چاہے وہ عام انسان یا کسی ادارے کا ملازم یا ہی کیوں نہ ہو پورے پاکستان کے بڑے شہروں کے بعد اب پاکستان کے دیہاتی علاقوں کو دیکھا جائے تو اب ان میں زیادہ ایسے واقعات ہو رہے ہیں جن کو اکثر دیہاتی لوگ کہا کرتے تھے کہ ایسے واقعات صر ف پاکستان کے بڑے شہروں میں ہی ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن اب پاکستان کے دیہاتوں اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی نا انصافی اور مظالم کی انتہا ہو چکی ہے ۔جس کی بڑی وجہ عام لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ آنا ہے۔ جو کہ ہر جائز اور نا جائز کام کروانے کے لیے ہر جگہ اور ہمارے اداروں میں چھپی کالی بھیڑوں کو استعمال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس وجہ سے ہمارے اداروں پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جیسا کے کچھ دن پہلے جناب محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا ۔

کہ انصاف کی فراہمی ہمارے تمام قومی اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔جبکہ دیکھا جائے تو ہمارے اداروں میں چھپی کالی بھیڑوں کی وجہ سے ادارے بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور عوام میں اداروں سے انصاف کی فراہمی کا اعتماد ختم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جس وجہ سے کئی لوگ نا امید ہو کر خود انصاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جرائم کا نشانہ بن جاتے ہیں اور حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں ۔

دوسری طرف وفاق کے دیہاتی علاقوں میں پرائیویٹ سوسائٹیوں کے قیام کی وجہ سے یہاں بھی حالات خاصے خراب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں قبضہ مافیا کو یہاں کوئی پوچھنے والا نظر نہیں آتا سفارش اور پیسے کا ذور اس قدر لگایا جاتا ہے جیسے کے کسی نے ایک دن موت کا مزہ جیسے چھکنا ہی نہیں ہے۔جس کی مثال وفاقی دیہاتی علاقہ (گ)کے ایک معمر شخص (ٴم) کی زمین پر قبضہ مافیا صرف بیانہ دینے پر قابض ہو گیا ۔

جس وجہ سے معمر شخص دل کا دورہ پڑنے پر خالق حقیقی سے جا ملا۔ایسے کئی واقعات وفاقی دیہاتی علاقوں میں ہو رہے ہیں جن کو ایک ایک کر کے لکھنے کے لیے کافی وقت درکار ہے جب کہ وفاقی دیہاتی علاقوں میں جرائم میں اضافہ اس قدر ہو رہا ہے جسے اگر ابھی نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں اسے روکنابہت مشکل ہو جائیگا ۔یہاں آئے روز چوری زنا اغواکے مقدمات میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

جبکہ وزیراعظم عمران خان اور ہمارے اعلی افسران اپنی طرف پوری کوشش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اسلام آباد آئی جی کی جانب سے عوام کے لیے ہیلپ ڈیسک کا بھی قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔جس کے باوجود تھانہ کلچر میں کوئی خاصی تبدیلی نظر نہیں آ رہی جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ کچھ دن پہلے وفاقی تھانہ لوئی بھیر کو جسم فروشی شاب نوشی اور زنا ہونے پر ایک پڑوسی نے ون فائیو پر کال کی جس پر تھانے کے آئی او صاحب نے کہا کہ ہم اس وقت رات کے بارہ بجے موقع پر نہیں آ سکتے جبکہ تھانے کا جائے وقوعا سے فاصلہ صرف چار کلو میٹر کا تھا ۔

جس وجہ جس وجہ سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جب کہ ان پر پہلے سے ہی اغوا زنا کا مقدمہ درج تھا جبکہ اس دن کی پڑوسی کے پاس موقع کی ویڈیو بطور ثبوت موجود ہے جسے دوسرے دن انہیں پڑوسی پیشہ ور افراد نے مارا پیٹا اور اسے شدید زخمی کر دیا ۔اور دھمکیاں دی کہ تمہاری پولیس نہیں سنے گی۔جس پر پھر وہ افراد فرارہو گئے ۔جس پر پڑوسی نے پھر تھانے سے رجو کیا اور میڈیکل کروانے کے بعد مزید کاروائی کو آگے جاری رکھا یہاں پر آپ ہی یہ سوچ کر بتائیں کہ انصاف کی فراہمی کس کی اہم زمہ داری ہے اور اس برائی اور لا پروائی کا ذمہ دار آخر کون ہے جو برائی کو ختم کرے گا اور انصاف فراہم کرے گا؟ہم سب کی آخر یہ ہی حقیقت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :