
میں واپس نہیں جانا چاہتی ...... !
جمعہ 9 اکتوبر 2020

کوثر عباس
(جاری ہے)
میرے ساتھ ایسا دردناک اور ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا کہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آجائے ، اگر میرا شوہر زندہ ہوتا تو پتی پوجا (خاوند کی پوجا) مجھ پر فرض تھا اور اگر شوہر مر جاتا تو مجھے بھی ستی کر دیا جاتا تھا ، موم بتی ہاتھ میں پکڑ کر حجاب کومیرے لیے قید خانہ کہنے والی آنٹیوں کو کیا خبر کہ”ستی “ کی رسم کتنی دردناک ہوتی تھی ؟میرے شوہر کی میت کو جلانے کے آگ جلائی جاتی ، جب آگ بھڑک اٹھتی تو مجھے چتا کے اوپر لٹا دیا جاتا ، یوں مردہ خاوند کے ساتھ مجھے بھی زندہ جلنا پڑتا ،معاصر مذاہب عالم میں تو مجھے برائی کی جڑ ، دوزخ کا دروازہ اور شیطان کی آلہ کار کہا جاتا تھا ، فریڈرک ولیم نطشے کے بقول مرد جب بھی میرے پاس آتا تھا ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوئے آتھا ، مجھے ایک معمہ کہا جاتا تھاجس کا واحد حل حمل تھا ، جو میرے حقوق کی بات کرتا تھا اسے احمق کہا جاتا تھا ، تمہیں یاد ہے کرائی سوسٹم میرے بارے میں کیا کہتا تھا؟ اس کے مطابق میں ایک پیدائشی اور ناگزیر برائی تھی ، ترتولیاں کے مطابق برائی کی طرف لے جانی میں ہی ہے ، اگر مجھے اپنے شوہر کے ساتھ خلوت میسر آ جاتی تھی تو اگلے مجھے دن چرچ جانے کی اجازت نہیں تھی ، بقول کلور ٹنکو میری تو ازدواجی زندگی ہی غیر قانونی تھی ، یونان ، روم ، ایران اور مصر جنہیں اس دور میں تہذیب کا نشان سمجھا جاتا ہے وہاں تو مجھے تار تار کیا جاتا تھا اورمیری تذلیل کو انتہا تک پہنچایا دیاگیا تھا ،میری حیثیت ان تہذیبوں میں بہت ہی گری ہوئی تھی ، مجھے جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ، اس دور کے ادیبوں ،مفکروں اور شاعروں کا دستیاب کلام اٹھا کر دیکھ لیں ، جب بھی میرا تذکرہ آئے گا شہوت کے ساتھ ہی آئے گا ، بقول ڈاکٹر گنتالی یونان میں مجھے ایک کم درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا ، روم میں تو شوہر کو مجھے قتل کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا ،فلور نامی ایک کھیل بھی کھیلا جاتا تھا جس میں مجھے ننگا دوڑایا جاتا تھا اورمیرے باپ اور بھائیوں سمیت تمام مرد لطف اندوز ہو کر تالیاں بجایا کرتے تھے ، انسائیکلو پیڈیا آف برطانیا کے مطابق میرے تمام حقوق مرد کے حوالے کر دیے جاتے تھے ، میرے باپ یزد گرد ثانی (فارس کابادشاہ ) نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا اورجب ہوس کی آگ بجھ گئی تو مجھے قتل کر دیا تھا ۔
تمہیں مزدک کی تعلیمات یاد ہیں ؟اس نے تو مجھے پوری قوم کا مشترکہ ورثہ قرار دیا تھا ، جب جس کا دل چاہتا مجھے کسی بھی چوک میں پکڑ لیتا تھا ، جب مجھے باز نطینہ کے بازار میں بیچنے کے لیے لایا جاتا تھا تو خریدار مجھے الف ننگا کر کے دیکھا کرتے تھے ، اگر کسی نے ادھار لینا ہوتا تھا تو مجھے بڑے بڑے ساہوکاروں کے پاس گروی رکھ دیتا تھا ، اگر کسی کے گھر میں پیدا ہو جاتی تو وہ مجھے قتل یا زندہ درگور کر دیتا تھا ، اگر ایسا نہ بھی کرتا تو شرم کے مارے کئی کئی مہینے گھر سے نہیں نکلتا تھا ۔
احتجاج کی ضرورت تو تب تھی جب میرے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا تھا ،لیکن آج جب باپ میرا قلعہ ، بھائی میرا محافظ، شوہرمیری ڈھال بن چکا ہے، اولاد بیچنے کی بجائے میرے قدموں میں جنت تلاش کر رہی ہے ، لوگ منڈیوں سے خریدنے کی بجائے مہذب طریقے میرا رشتہ مانگ رہے ہیں ،باپ مارنے کی بجائے باعزت طریقے سے مجھے رخصت کر رہا ہے تو کوئی مجھے یہ درس نہ دے کہ اسلام اور حجاب نے مجھے قیدی بنا دیا ہے ،جس نے اس ”مہذب “معاشرے میں جانا ہے شوق سے جائے ، میں تو اسی ”غیر مہذب “ معاشرے میں ہی محفوظ ہوں جہاں میں شہزادیوں کی طرح گھر بیٹھ کر کھاتی ہوں اورمیرے اپنے مجھے بچانے کے لیے ہمہ وقت مستعد ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.