
وہیل چیئر والے بابا جی !
منگل 24 نومبر 2020

کوثر عباس
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس“
(جاری ہے)
اِدھرسرکاری سطح پر منائے جانے والا عشرہ رحمة للعالمین کا آخری دن تھا اور اُدھر اس عاشق صادق کا اس روئے زمین آخری دن تھا ، واللہ کیا مطابقت ، ایں سعادت بزور بازو نیست ۔
خادم حسین صرف نام کا خادم نہیں تھا بلکہ اس نے زندگی بھی واقعی میں اپنے آقا کا خادم بن کر گزاری ۔
وہ کہتا تھا کہ ” حضور نال عشق کرنا ایں تے انّے واں کرنا ایں “۔یعنی آقا سے عشق کرنا ہے اور اندھا دھند کرنا ہے۔اس نے صرف کہا ہی نہیں بلکہ اپنے آقا و مولا سے ”انّے واں “ عشق کر کے دکھایا بھی ۔جب راہ عزیمت پر نکلا تو اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر گیااورنہ صرف انہیں بلکہ خود بھی کارکنوں کے ساتھ ہی سڑک پر سوتا رہا۔ وہ چاہتا تو باقی پیروں کی طرح اعلی حلقوں سے بنا کر رکھتا اور اپنے بیٹوں کی شادیوں میں ان سے سلامیاں لیتا ، یورپ میں پرتعیش زندگی بسر کرتا ،کنونشن ہال میں ایک آدھ سالانہ ”ختم نبوت کانفرنس “کر کے مریدوں کو بیوقوف بناتا ، اپنے لیے محل تعمیر کراتا، مریدوں کے بچوں سے مدرسوں کو آباد کرکے اپنی اولادوں کو بیرون ملک بھیج دیتا لیکن اس نے خانقاہوں میں بیٹھ کر نذرانے وصولنے کی بجائے رسم شبیری ادا کرنا ضروری سمجھا ۔اس کی ساری گفتگو نقطہ ”لولاک “ کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ خواہشات ِنفس کا مَرْکَبْ (سواری) نہیں بلکہ راکب(سوار ) تھا ۔اس کے رگ و پے میں شوخی گفتار کی بجائے مستی کردار کا سمندر موجزن تھا ۔اس کی امیدیں قلیل ، مقاصد جلیل ، ادا دلفریب ، نگاہ دلنواز ، گفتگو نرم دم اور جستجو گرم دم تھی ۔وہ ایک ایسا طوفان تھا جس سے دریاوٴں تک کے دل لرزتے تھے ۔اس کے خمیر میں قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کے چاروں عناصر موجود تھے ۔اس نے جان کے خوف سے کبھی جھوٹ نہ بولا کیونکہ وہ صدق سلیمان کاپرتو تھا ،وہ کبھی کسی مشکل سے بھاگا نہیں کیونکہ وہ زور حیدر کی زندہ مثال تھا اورکسی نے اسے ہاتھ پھیلاتے نہیں دیکھا کیونکہ وہ فقر بوذر کا مصداق بھی تھا ۔
اس مردِ مجاہد کے ہاتھوں میں یقین محکم ، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم جیسے سکہ بند ہتھیار تھے۔سفر عزیمت شروع ہوا تھا تو وہ اکیلا ہی تھا لیکن اس کے جنون نے ایک دنیا کواپنا بنا لیا ۔وہ صحابہ کے عشق مصطفیٰ کی زندہ مثال تھا جسے دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ اپنا سب کچھ نبی اکرم پر کیسے مٹایا جاتا ہے ؟جب ناموس صحابہ کے مسئلے اپنے بھی اس کے مخالف ہو گئے اور بڑے بڑے قد والے حاکمان ِ وقت کی چوکھٹ پر جھک گئے ،وہیل چیئر والا بابا تب بھی پورے قد سے کھڑا رہا ۔بقول بابا بلھے شاہ؛
”نہ علماں وچ پھنسا سانوں
کوئی عشق دی گل سنا سانوں“
لوگ اسے علم میں پھنسانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ ”عشق دی گل“ سناتا رہا اور آخر کاربقول امام احمد بن حنبل، اس کے اور اس کے مخالفین کے درمیان فیصلہ اس کے جنازے نے ہی کیا ۔بابا جی جنازے کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں انہی کا ایک فقرہ مسلسل گونجتا رہا جو انہوں نے مینارپاکستان پر ہی منعقدہ ناموس صحابہ کانفرنس میں بولا تھا :
” دس اوئے مینارِ پاکستان ! ایہو جیا منظر کدی پہلے وی ویکھیا ؟“
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.