ہم پھربھی خوش ہیں

بدھ 27 جنوری 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

طاہر پچھلے دس سال سے کینیڈا میں رہتا ہے۔ جیکب نہ صرف اس کا ہمسایہ بلکہ بہترین دوست بھی ہے۔ وہ نہ صرف خوش رہنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ہر محفل کی جان سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج صبح جیکب حسب ِ خلاف غمگین اور بجھا بجھا سا تھا۔ طاہرنے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پریشانی کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے ہمسائے میں ایک جوڑارہتا ہے انہوں نے ایک کتا پال رکھاتھا۔

کسی وجہ سے انہیں تین دن کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا۔جب وہ گھر روانہ ہوئے توکتا کمرے میں تھاجو بے خیالی میں کمرے میں لاک ہو گیا۔جب اسے بھوک پیاس نے ستایاتو اس نے بھونکنا شروع کر دیا۔ شروع میں تو لوگوں نے اسے معمول سمجھا مگر جب اس کا بھونکنا کسی طور بند نہ ہوا توانہیں تجسّس ہوا۔ پولیس کو اطلاع دی گئی۔

(جاری ہے)

پولیس آئی، دروازہ توڑا گیا اور یوں کتے کو باہر نکال کر اسے خوراک مہیا کی گئی۔


یہ سن کر طاہر نے پوچھا : اس میں پریشانی کی بات کیا ہے؟ جیکب نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا: میں اس لیے پریشان ہوں کہ ایک کتا دو دن کمرے میں بند رہا۔اگر وہ بھوک پیاس سے مر جاتا تو؟ طاہر نے مسکرا کر کہا : بس! تم اتنی سی بات پر پریشان ہو؟ ہمارے ملک میں سینکڑوں دھماکے ہوتے ہیں جن میں ہزاروں لوگ مرتے ہیں لیکن پھربھی ہماری وہ حالت نہیں ہوتی جو تمہاری محض ایک کتے کے بھوکا پیاسا رہنے پر ہو رہی ہے۔

کیوں؟کیونکہ ہم بہادراور تم بزدل قوم ہو۔ یہ سن کر جیکب نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندے پر رکھا، تھپکی دی اورکہا ”نہیں! ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ تم بے حس ہو۔ تم جسے اپنی بہادریسمجھ رہے ہو وہ بہادری نہیں بے حسی ہے اور جسے ہماری بزدلی سمجھ رہے ہو وہ بزدلی نہیں احساس ہے“۔
اگر آپ جیکب کی تول کو گہرائی میں دیکھیں تو اس نے ہماری نفسیات کو ایک فقرے میں سمو دیا ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہادر نہیں بلکہ واقعی بے حس ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ”توجّہ دلاو“ نوٹس کہتا ہے کہ پنجاب میں تہترہزار (73000) اشتہاری ابھی تک گرفتار نہیں کیے جاسکے۔ ان میں دوسوچالیس (240) وہ ہیں جن کا نام بلیک بک میں ہے۔ اگر دو ڈالر یومیہ آمدنی کاحساب لگایا جائے تو ہماری آدھی آبادی خط غربت سے نیچے ہے جبکہ عالمی بینک اور دیگر اداروں کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔

پچھلے چاربرسوں میں ہمارے ہاں2300000 جرائم ہوئے۔ ملک میں6700000 سے زائد لوگ نشے کے عادی ہیں جن کی عمریں پندرہ سال سے چونسٹھ سال تک ہیں۔ سات لاکھ سے اوپرسٹریٹ کرائم ہو تے ہیں۔ ملک عزیز میں ہر ہزار میں دوسوساٹھ بچے زچگی کے فوراً بعد مرجاتے ہیں۔جو بچ جاتے ہیں ان میں سے بھی پندرہ فیصد (15 %) شدید بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ زچگی کی وجہ سے پیسٹھ لاکھ خواتین مختلف پیچیدہ مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔

آبادی کے ہر پانچھ لاکھ کے لیے صرف ایک سائیکا ٹرسٹ موجود ہے۔ ہماری صحت کے لیے بجٹ کا شرمناک حد ہے۔1500000 سے زائدلوگ دماغی مسائل کا شکار ہیں جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری چالیس فیصد آبادی مختلف سطح کے کسی نہ کسی دماغی یا نفسیاتی عارضے کا شکار ہے۔لوگ باہر سے آتے ہیں اور دن دیہاڑے لوگوں کومار کر باعزّت رہاہوجاتے ہیں۔ہمارے رہنما ٹی وی پر بیٹھ کر علی الاعلان کرپشن کو اپنا حقّ بتاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی کے لیے محفوظ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر ایک سو سینتیس، شرح خواندگی کے اعتبار سے ایک سو انچاس، صحت میں ایک سو چھپن، معیارزندگی میں ایک سو سڑسٹھ اورانسانی ترقی کے لحاظ سے ایک سو انتالیس درجے پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ملازمتی شعبہ چالیس فیصد جبکہ عدلیہ اور ارکان پارلیمینٹ چودہ فیصد کرپشن کا شکار ہیں۔

پچھلے سال اٹھارہ فیصد شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی نہ کسی سطح پر رشوت دینے پر مجبور ہوئے۔
یہ سارے حقائق اپنی جگہ لیکن ہم پھر بھی اتنے ”بہادر“ ہیں کہ کتا کجا دھماکوں اور دہشت گردی میں ذبح ہونے والوں کا غم بھی ہماری روش نہیں بدل سکتا۔ ایک نظر ان مسائل کو دیکھیں اور پھر دیانتداری سے بتائیں کہ کیا واقعی خوشی اسی کا نام ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگ واقعی بے حس ہیں اور وہ بھی اس قدرکہ خوشی اور بے حسّی کے فرق سے ناآشنا ہو چکے ہیں۔

کیا ہمارے ”مائی باپ“ حقیقت پسندی کا سامناکر سکتے ہیں؟ عوام اتنی بے حس کیوں ہوئی؟انہیں ”نفسی نفسی “ کی کیفیت میں مبتلا کرنے والا کون ہے؟ ملک اسی لیے بنا تھا؟کیا قومیت ، رنگ اور زمین اور اندان تبدیل ہونے کا نام آزادی ہے؟عرصہ بعد سینے کا غم اشعار کی صورت ڈھالا ہے ۔
زندان تو بدلا ہے زنجیر نہیں بدلی
نگران ہی بدلا تھا تقدیر نہیں بدلی
آزاد ہوئے تھے ہم کیسی تھی یہ آزادی
بس ملک ہی بدلا تھا تقدیر نہیں بدلی
ہے قید وہی اب بھی بس فرق یہی ٹھہرا
دیوان تو بدلے تھے تحقیر نہیں بدلی
ہے جسم ہمارا ہی معمول ستم اب بھی
مامور تو بدلے ہیں تذلیل نہیں بدلی
اسلام کے نعرے پر اک ملک بنا ڈالا
ملبوس ہی بدلے ہیں تبخیر نہیں بدلی
کوثر یہاں لوگوں میں خیرات بٹی اتنی
پہچان تو بدلی ہے تفریق نہیں بدلی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :