فوبیا

جمعرات 15 مئی 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی بارہ بجنے میں تین منٹ باقی تھے، میرے ذہن میں ایک مانوس خدشے نے سراٹھایا تو میں نے اس کو ”منطقی“ جواب دے کرسلا دیا ۔اتفاق سے لفٹ موجود تھی اور میرے علاوہ کوئی مسافر نہ تھا، میں نے آٹھویں منزل کا بٹن دبایا۔لفت کا دروازہ بند ہوا ۔ابھی آدھا سفرطے ہوا تھا کہ لفٹ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے رک گئی،مانوس خدشہ سچ ثابت ہوگیاتھااس اچانک صورتحال کے باوجود میرے حواس قائم رہے۔

”ابھی جنریٹر چل جائے گا“میرے ذہن سے ایک خودکار نظام کے تحت یہ پیغام پورے جسم کو منتقل ہوا۔چند ساعتوں بعد لفٹ کے اندر کی لائٹ بھی بند ہوگئی۔ اب لفٹ میں پھنس جانے کا خوف بارش کے پہلے قطرے کی مانند میرے احساسات کی زمین پر گرا تو میرا ہاتھ ایمرجنسی بٹن کی طرف بڑھا لیکن لفٹ کے پینل میں بھی کرنٹ نہیں تھا۔

(جاری ہے)

خوف کی رم جھم اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جس نے جلد ہی اک طوفان کی حیثیت اختیار کرلی ،اس پر میرے جذباتی کنٹرول کی عمارت لرزنے لگی، دل کی دھڑکن تیز ہونا شروع ہوگئی، سینے میں دردمحسوس ہونے لگا،گھبراہٹ نے پورے جسم کو حصار میں لے لیا اورسانسیں اکھڑنے لگی۔

8فٹ کی لفٹ مجھے تابوت محسوس ہونے لگی اسی اثناء میں جنریٹر چل گیا، لفٹ دوبارہ پہلی منزل پر آگئی دروازہ کھل گیا اور میں باہر نکل آیا۔عین اس لمحے مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے لفٹ کے ذریعے دوبارہ آٹھویں منزل تک جانے کی ”جرأت“ کر لی تو اس واقعہ کے اثرات پر قابو پا لوں گا مگر میں ایسا نہ کرسکا۔ آج اس واقعہ کوگزرے دو سال پانچ ماہ اور دس دن ہوچکے ہیں میں لفٹ میں سوار نہیں ہوا خواہ مجھے دسویں منزل پر بھی جانا ہو تو میں پیدل ہی جاتا ہوں اور مجھے ہفتے میں دو سے تین مرتبہ اس جسمانی اذیت سے گزرنا پڑتاہے۔

میری اس ”معذوری“نے مجھے زندگی سے آرام اور خوشی کے لمحات سے محرومی کا گہرا احساس دیا۔یہ ادراک میرے لیے کسی اذیت سے کم نہیں تھا کہ اب دنیا کی بلند ترین عمارت برج ا لخلیفہ کی ایک سو ساٹھویں منزل سے زمین کا نظارہ کرنے کی میری خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہوسکے گی۔میں تو چند سیکنڈ کے لیے بھی لفٹ میں سوار ہونے سے گھبراتا ہوں اور کہاں برج ا لخلیفہ میں نصب دنیا کی تیز ترین لفٹ میں بیس منٹ سوار ہوکر آخری منزل تک پہنچنا۔

میں نے اپنی اس کیفیت کے بارے میں آگاہی کے لیے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں تنگ جگہ کے کلاسٹرونامی فوبیا(Claustrophobia)کا شکار ہوں۔میں نے اپنے اس مرض پر قابو پانے سے پہلے اس نفسیانی کیفیت کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کیا۔میری تلاش کا پہلا سوال یہ تھا کہ انسان کو خوف کیوں محسوس ہوتاہے، کسی کو اندھیرے سے ڈر محسوس ہوتاہے تو کسی کو تنہائیوں اور ویرانی سے،کسی کو جنوں اور بھوتوں سے تو کسی کو انجانے دشمن سے، کوئی آنے والے وقت سے خوف زدہ،تو کوئی بیتے ہوئے ماضی کی یادوں سے ڈرتا ہے ،کسی کو آوارہ پھرنے والے بظاہر بے ضرر نظر آنے والے کتے سے اس قدر ڈر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے روح فنا ہوتی محسوس ہوتی ہے۔

اس کے باوجود ایسے انسان بھی موجود ہیں جو اندھیری رات میں سنسان قبرستان کے کسی دور افتادہ گوشے میں خالی قبر کے اندر لیٹ کر چلہ تک کاٹ لیتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ بعض انسانوں کی زندگیاں بے ضرر چیزوں کے خوف میں گزرتی ہیں تو بعض انسان ان حالات میں بھی خوف محسوس نہیں کرتے جو دلیر سے دلیر شخص کا بھی پتا پانی کردیں۔کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ انسان ڈر کو اپنے اندر سے نکال سکے،نیزڈر،خوف کیا ہے،کس چیز سے جنم لیتا ہے،اس کی اصل کیاہے؟
انسان اشرف المخلوقات ہے اور خلیفہ الاارض بھی ہے تو پھر کچھ انسان اس قدر بے بس کیوں ہوجاتے ہیں۔

کیوں ان کے اپنے اندر ہی ایک” دشمن“ جنم لے لیتاہے جو انہیں قدم قدم پر مات دینے لگتاہے۔میں نے سب سے پہلے جانا کہ درحقیقت خوف کسی بھی شے کی مختلف کیفیات،حالات ، قوتوں اور ان کے نتائج کے علم سے پیدا ہوتا ہے۔جیسے ایک شخص جانتا ہے کہ آگ جلاتی ہے،زہر مارتا ہے، زلزلہ زمین کو ہلادیتاہے ،پانی ڈبودیتا ہے اسی لیے وہ ان سے خوف کھاتاہے۔

کسی مخبوط الحواس شخص یا بہت ہی کم سن بچے کو کسی شے کا خوف ہی نہیں ہوتاکیونکہ وہ اشیاء کے خواص سے واقف نہیں ہوتا۔خوف کی پہلی شرط حواس اور عقل کا قائم اور دوسری شرط اشیاء کے خواص کا علم ہوناہے۔ ہم جس ان دیکھے اور مختلف خوف کو کبھی کبھی محسوس کرتے ہیں،وہ بھی ہمارے حواس اور عقل و فہم کے مختلف ادراکات کی کارفرمائی کاہی نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ ہمارا ذہن مختلف حالات اور صورتوں کو ملا کر ایک نئی کیفیت یا کیفیات کی شکلیں ترتیب دیتا ہے یا ان کا تصور کرتا ہے لیکن محض تصور ہی کسی خوف کی وجہ سے نہیں بنتا،بلکہ اس کے پیچھے مختلف حالات و کیفیات اور عوامل پوشیدہ ہوتے ہیں۔


خوف کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں ایک وہ خوف ہے جو عمومی طور پر تمام لوگوں میں پایا جاتاہے۔ دوسرا خوف وہ ہے جو انفرادی سطح پر مخصوص حالات و واقعات سے وابستہ ہوتا ہے اس کو فوبیا کہا جاتا ہے۔علم نفسیات میں فوبیا سے مراد وہ غیر حقیقی اور غیر منطقی خوف ہے جو انسانی ذہن میں مخصوص حالات میں پیدا ہوتاہے اور انسان کوگھبراہٹ اوربے چینی کی مخصوص کیفیات سے دوچار کردیتاہے علم نفسیات میں اب تک ایک ہزار سے زائد فوبیاز دریافت کیے جاچکے ہیں۔

یہ فوبیازمختلف افراد میں مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص آگ سے خوف کھاتا ہے، کوئی بلندیوں سے ڈرتا ہے، کوئی پانی سے اور کوئی اندھیرے سے۔ اسطرح ہر شخص میں فوبیاکی وجہ بھی مختلف ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ فوبیامحض خیالی ہوتے ہیں لیکن جب فرد کو حقیقت میں اس حالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسکی جسمانی حالت پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو عام خوف کی حالت میں ہوتے ہیں۔

مثلاً اگر کوئی شخص بلندی سے ڈرتا ہے تو اگر وہ اوپر سے نیچے دیکھے تو اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایسے فوبیاکی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے جو لاشعوری ہوتی ہے اور اسکا تحلیل نفسی کے بعد پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمارے سر کے اندر لاکھوں باریک خون کی نالیوں اور ریشوں پر مشتمل چودہ سو گرام کا جو گچھا رکھ دیا ہے یہ ہمارے جسم و جان کا حاکم ہے ،یہ ایک نہایت پیچیدہ نظام کا حامل وہ مرکز ہے جو معجزے اور کرشمے کرگزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں ایک معمولی سی بے تربیتی کئی” معذوریوں“کو جنم دے دیتی ہے۔

یہ گھچا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کا مجموعہ ہے ۔ہارڈ ویئر ہمارا دماغ اور سافٹ ویئر ذہن ہے۔اب اسی مثال سے ہم نفسیاتی امراض کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔جس طرح ایک کمپیوٹر کی بہتر کارکردگی کے لیے تیز ترین پروسیسز اور دیگر آلات کے ساتھ وائرس سے محفوظ سافٹ ویئرضروری ہوتا ہے اسی طرح دماغ اور ذہن دونوں کی تندرستی ایک متوازن شخصیت کے لیے ضروری ہے۔


نفسیاتی امراض خصوصاً فوبیا کی وجہ دماغ یا ذہن میں سے کسی ایک کا” زخمی “ہونا ہے۔
فوبیاز پر تحقیق کے بعد ماہرین نے انہیں سماجی،مذہبی اور انفرادی کیٹگریز میں تقسیم کیا ہے۔فوبیاز کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ جب آدمی مخصوص حالات میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو ان اذیت ناک لمحات کا اثر آدمی کے لاشعور میں یقین بن کر بیٹھ جاتا ہے اور جونہی آدمی کا ان حالات سے واسطہ پڑتا ہے تو لاشعور میں یقین کا روپ دھارے فوبیااپنا اثر دکھانے لگتاہے۔

یہ یقین ہی ہے جواگر ایک انسان کو طرف غیر حقیقی،ان دیکھی صورت حال اور واقعات سے خوفزدہ کیے رکھتا ہے تو دوسری طرف اسی کے بل پر انسان ستاروں پر کمند ڈالتا ہے۔”مائنڈ پاور “باقاعدہ ایک علم بلکہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکاہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے لاکر کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔

بڑے تجارتی ادارے اپنے کارکنان کی ذہنی استعداد کو بڑھانے کے لیے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔یہ ہمارے ذہن کا ہی امتیاز ہے کہ انسان کوخود کو نہ جلنے کا یقین دلاتا ہے اور دھکتے ہوئے کوئلوں پرننگے پاؤں چل پڑتا ہے اور اس پرآگ اثر نہیں کرتی ۔یہ یقین ہی کی کارستانی ہے کہ جنت کو پانے کی لگن میں انسان خودکش بمبار بن کر نہ صرف اپنی زندگی گنواتا ہے بلکہ درجنوں زندگیوں کے چراغ بھی گل کردیتاہے۔


حادثات اور واقعات کا اثر وہ ذہن جلد قبول کرلیتے ہیں جو مسلسل پریشانی اور دباؤ کے ماحول میں رہتے ہیں۔بعض لوگوں کو فوبیاز موروثی طور پر ملتے ہیں، میڈیکل تحقیق کے مطابق دنیا میں آنے والے ہر بچے میں اس کے آباء واجداد کی شخصیت کی چالیس ہزار جہتیں (خوبیاں،خامیاں، عادات و اطوراور بیماریاں وغیرہ) منتقل ہوتی ہیں۔جب ہماراذہن بیرونی پریشانیوں اور بیرونی دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتا تو پھر ہمارے دماغ میں بھی کئی کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو نفسیاتی امراض کا سبب بنتی ہیں۔

انسان اس وقت تک ذہنی طور پرمحفوظ رہتاہے جب تک اس کے ذہن کی دباؤ برداشت کرنے کی قوت کی سطح بلند رہتی ہے۔
فوبیاز کی تکنیکی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دماغ میں نیرو ٹرانسمیٹر(Neuro transmitter)کا ایک نظام ہے جس سے مختلف اعمال،جذبات اوراحساسات سے متعلق لہریں نکلتی ہیں جب ان نیروٹرانسمیٹرکے نظام میں خلل آجائے تو آدمی کسی فوبیاز کا شکار ہوجاتاہے۔


علم نفسیات نے اتنی زیادہ ترقی کرلی ہے کہ اب پیچیدہ سے پیچیدہ نفسیاتی امراض کا علاج دریافت کرلیاگیاہے۔ماہرین نفسیات فوبیا کو علاج کے حوالے سے بہت معمولی بیماری سمجھتے ہیں جس کے علاج کے لیے دنیا میں سائیکو تھراپی کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جس میں ماہر ڈاکٹر مریض کے لاشعور سے فوبیا کی وجہ بننے والے یقین کو ختم کردیتے ہیں۔

اسی طرح بعض لوگوں کو سائیکوتھراپی کے ساتھ ساتھ ادویات کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔فوبیاایک قابل علاج مرض ہے پاکستان میں بھی کئی ماہر نفسیات اس کا کامیاب علاج کررہے ہیں ۔لاہور میں پروفیسر ارشد جاوید نے مختلف طریقہ علاج کو یکجا کرکے ”سوفٹ تھراپی“ کی تکنیک ایجاد کی ہے جس میں مریض چند سیشن میں تندرست ہوجاتا ہے۔فاؤنٹین ہاؤس کے ڈاکٹر عمران مرتضیٰ ادویات اور سائیکو تھراپی دونوں کی مدد سے مریضوں کو شفا یاب کرنے میں بہت شہرت رکھتے ہیں۔فوبیا سے نجات کا بہترین طریقہ فوبیا کی وجہ سے بننے والے حالات کا سامنا کرنا ہے نیز اس پر عمل کرکے آدمی اپنے اندر جنم لینے والے ”دشمن“ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :