
بے چارے صحافی
جمعرات 25 اگست 2016

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
میڈیا ہاؤسز اور جرنلسٹوں پر حملوں کا معاملہ اب ایک عالمی مظہر ہے۔ گزشتہ سال پوری دنیا میں قتل یا ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد73تھی۔ ان میں سے دو کا تعلق پاکستان سے تھا۔2014میں یہ تعداد 61تھی اور ان میں سے تین پاکستانی صحافی تھے اور2016کے آٹھ مہینوں میں اب تک 27صحافی اپنی زندگیوں سے محروم ہو چکے ہیں اور اگلے چار ماہ میں کیا ہونے والا ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ صحافی شام میں ہلاک ہوئے‘ جس کی وجہ وہاں کے جنگ زدہ حالات ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25برسوں کے دوران دنیا بھر میں کم از کم 2297صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ تنظیم کے مطابق اب تک کسی ایک سال کے دوران سب سے زیادہ صحافیوں کو 2006میں قتل کیا گیا۔ ان کی تعداد155تھی۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے‘ انہیں بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں کراس فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور انہیں اغوا کر کے ٹارچر سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان سارے کیسز میں سے بہت کم کی تحقیقات کی گئی یا مجرموں تک پہنچ کر انہیں عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب میڈیا ہاؤسز پر ماضی کی نسبت زیادہ حملے ہونے لگے ہیں‘ چنانچہ یہ بات طے ہے کہ جب تک حکومت کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا سچ بات کہنا ان کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت نے پیر کے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پیر کے روز کراچی میں جو کچھ ہوا وہ اس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے‘ جس نے ایم کیو ایم کا کارکن بن کر یا ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے تشدد کا راستہ اختیار کیا‘ اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں‘ اب ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے یہ عمل نہیں دھرایا جائے گا اور یہ اکہ ایم کیو ایم کے فیصلے پاکستان میں ہوں گے۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما اور رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر داکٹر فاروق ستار کی ان باتوں اور یقین دھانیوں سے چلیں ایم کیو ایم کا معاملہ یا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے بعد میڈیا ہاؤسز کو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا۔ یہ خطرہ پہلے کی طرح اب بھی موجود رہے گا۔ کل کو کسی اور سیاسی یا مذہبی گروہ کو کسی چینل کی کوئی بات ناگوار گزری تو ایک بار پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہو گا۔ اس لئے میڈیا ہاؤسز کی سکیورٹی کے لئے فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے‘ چاہے یہ خود کریں یا حکومت اس کا انتظام کرے۔دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ معاشرے کو معتدل بنایا جائے تاکہ وہ اپنے اندر حق بات کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا کرے‘ تاہم ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی جس حد تک بڑھ چکی ہے لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں اس کے کچھ امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں میڈیا ہاؤسز ‘ صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والے دوسرے کارکنوں کی سکیورٹی ہی اس مسئلے کا واحد رہ جاتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.