آستانہ کی روشنی

منگل 13 جون 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سترہویں اجلاس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی تنظیم کا مستقل رکن منتخب کر لیا گیا۔ اس طرح علاقائی سطح پر قائم کی گئی یہ تنظیم کچھ مزید پھیل گئی ہے‘ جو اس کے فروغ پذیر ہونے کی طرف اشارہ ہے اور اس امر کا ثبوت بھی کہ پاکستان کی جیو سٹریٹیجک پوزیشن عالمی برادری‘ خصوصی طور پر اس خطے کے ممالک پر آشکار ہو رہی ہے۔

یہ مغرب میں کیپیٹل ازم کے غروب ہوتے ہوئے سورج کے بعد ایشیا میں ایک نئی اقتصادی روشنی کی کرن پھوٹنے کا عمل ہے۔ یہ گروپ وسطی ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں اور روس اور چین پر مشتمل ہے۔ وہ شمع جو 2001میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماوٴں نے جلائی تھی اس کی روشنی کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

مذکورہ بالا پانچ ممالک 1996سے شنگھائی فائیو گروپ کا حصہ تھے‘ لیکن 2001میں جب اس ڈھیلی ڈھالی تنظیم کو نیا رخ اختیار کرتے علاقائی و بین الاقوامی حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق از سر نو منظم کیا گیا تو اس کا نام تبدیل کرکے شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔

تب ازبکستان‘ جو اس وقت تک اس تنظیم میں شامل نہیں تھا‘ نے اس میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد امسال آستانہ اجلاس تک یعنی سولہ سترہ برسوں میں کسی نئے ملک کو اس تنظیم کا رکن نہیں بنایا گیا تھا۔ اب جبکہ ایشیا اور خصوصی طور پر جنوبی ایشیا میں حالات ایک نئی کروٹ بدل رہے ہیں تو اس کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ پاکستان 2005 سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا اور جواس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا ۔

2010 میں پاکستان نے اس تنظیم کا رکن بننے کے لئے باقاعدہ درخواست دی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015 میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی کل تعداد آٹھ ہوگئی ہے اور علاقہ بھی وسیع تر ہو گیا ہے۔


اس تنظیم کے 2001ء میں تشکیل پانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مزید ممالک کو تنظیم کا حصہ بنا کر اسے توسیع دی جا رہی ہے، تاکہ اسے مغربی اتحادوں کے مقابل ایک بڑے اتحاد کی صورت لایا جاسکے۔ اس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اس وقت بیلاروس‘ افغانستان، ایران اور منگولیا کو مبصرین کا درجہ حاصل ہے جبکہ آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور نیپال کو بطور ”مذاکراتی شراکت دار“ تنظیم میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ صورتحال بتاتی ہے کہ مستقبل میں اس تنظیم کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا اور اس کے رکن ممالک کی تعداد بڑھے گی۔
اس تنظیم کے مقاصد میں چونکہ سکیورٹی معاملات میں تعاون بڑھانا‘ مربوط فوجی سرگرمیاں‘ اقتصادی لحاظ سے رکن ممالک کی ترقی کے لئے کام کرنا اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینا شامل ہے‘ اور ظاہر ہے یہ سارے معاملات باہمی تجارت بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں‘ اس لئے پاکستان کا اس تنظیم میں شامل ہونا ہر لحاظ سے مفید اور اقتصادی ترقی کے لئے اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔

ویسے بھی پاکستان چین کے تعاون سے اقتصادی راہ داری کی تعمیر میں مصروف ہے‘ چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ ایس سی او (شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن) کی رکنیت اس راہ داری منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اسی لئے وزیراعظم نواز شریف نے حالیہ ایس سی او سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انتہاپسندی، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی سطح پر ایک مجموعی اور مضبوط ردّعمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے کو غیرمستحکم سیاسی و جغرافیائی ماحول کا سامنا ہے، اور انتہاپسندی کے خاتمے اور سرحدی سکیورٹی میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کے وہی مقاصد ہیں‘ جو شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اراکین ملکوں کے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم سے جنوبی ایشیا، افغانستان اور وسطی ایشیا میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کو ایک مفید فورم فراہم ہوگا۔

وزیر اعظم سے چین کے صدر ژی جن پنگ‘ افغان صدر اشرف غنی‘ روسی صدر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملاقاتیں کیں‘ جن میں مختلف امور زیر غور لائے گئے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں متعلقہ ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور تعاون بڑھانے کا موقع ملے گا۔
تحریک انصاف سمیت پاکستان بھر کی اہم سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بننے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا اور کہا ہے کہ اس سے نہ صرف معاشی اور اقتصادی لحاظ سے بہتری کی توقع بڑھے گی بلکہ رکن ممالک کے درمیان باہمی تنازعات کے حل کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔

مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان کی جیوسٹریٹجک پوزیشن سے دنیا کا کوئی ملک انکار نہیں کر سکتا۔ یہ اظہار مسرت اس امر کا ثبوت ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ لیکن ملک بھر کی سیاسی قیادت بہرحال پاکستان کو ایس سی او کی رکنیت ملنے کے حوالے سے ایک صفحے پر ہے یعنی پُر امید اور خوش ہے۔


آستانہ اجلاس کی ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ ایک موقع پر جب وزیر اعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر ا عظم نریندر مودی اچانک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے تو وزیر اعظم نواز شریف نے آگے بڑھ کر اپنے بھارتی ہم منصب سے مصافحہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے خوشگوار موڈ میں تین منٹ تک ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کی۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ چاہے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے ہی سہی‘ دونوں ممالک کی بیوروکریسی اور سفارت خانے اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین تفصیلی ملاقات کا اہتمام کر لیتے۔

اس طرح نہ صرف دونوں ملکوں کے مابین پائی جانے والی مخاصمت اور تناؤ میں کمی واقع ہوتی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جامع مذاکرات بحال کرنے کے سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت ہی سامنے آ جاتی‘ لیکن دونوں ملکوں نے اس اہم موقع سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں نہیں سوچا اور یوں دونوں رہنماؤں کی ملاقات غیر رسمی نہ بن سکی۔ پائیدار امن کی جانب قدم بڑھانے کا ایک بڑا اور شاندار موقع ضائع جانے دیا گیا۔
بہرحال توقع بلکہ یقین ہے کہ ایس سی او میں شمولیت پاکستان کی اہمیت بڑھانے اور اس کے لئے معاشی ترقی کے نئے در وا کرنے کا باعث بنے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :