خدمت

پیر 23 ستمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کوڑا کر کٹ کے ڈھیر سے رزق تلا ش کرتے بچے اور بچیاں ، بد بو دار فضا میں سانس لیتے انسان، جانور کے ساتھ گھاٹ سے پانی پیتے افراد، کم خوراکی کے سبب ہڈیوں کاڈھانچہ بنتے لوگ، اپنی عصمت اور عزت کی حفاظت کے غم میں گم حواکی بیٹی ، غربت کے ہاتھوں بے بسی کی بنی تصویر انسانیت ، ظلم، جبر کی چکی ہیں پستی آدمیت، اپنے رب سے شکوہ کناں تو ہو گی کہ اس نے انھیں کس عالم میں پیدا کیا ہے جہاں انسان نما بھیڑیئے موجود ہیں ، لالچ کے سمندر میں غو طہ خور افراد، کسی کی بے چالاکی اور غم زدگی سے فائدہ اٹھانے والے مطلب پر ست ، اپنی تجو ریوں کو بھرنے والے دولت کے پجاری ، اور نجانے کتنے ہوس زن ،زر، زمین میں مبتلا کر ہ ارض پر موجود ہیں ۔

محرومیوں کے سائے میں سانس لیتی اس آدم ذات کارقص زنجیر تو اوپر والا بھی دیکھتا ہو گا ۔

(جاری ہے)


 ان کا شکوہ بجا ہے کہ تہذیب یافتہ عہد ، انسانی حقو ق کے روشن دور میں انسا ن کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا ،بیچارہ بارودکا ایندھن بن رہا ہے ، اس کے بچے اغواہ بعد ازاں عصمت دری کے بعد بے دردی سے قتل کیے جا رہے ہیں ، زندہ انسانوں پر بم گرائے اور داغے جارہے ہیں ، کسی مامتا کے سامنے لخت جگر کی خون آلودہ لاش ہے، تو کسی بہن کے سامنے اسکا زخمی بھائی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے ، ان کی لاچارگی بے سبب نہیں اسکا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے غریب ملک میں آنکھ کھو لی ہے یاانکا تعلق سماج کے انتہائی پسماندگی اور دلت طبقہ سے ہے ۔

انکا دوسرا قصوریہ ہے کہ عالمی فیصلہ سازوں نے سماجی حثیت کے اعتبار سے انھیں خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، اور انکے جرائم کے تما م دانڈے غربت سے ملتے ہیں ۔
عالمی نیتاؤں کی خوش فہمی دیکھے کہ وہ ان کے دکھوں کا مداواہ کیے بغیر عالمی امن، خوشحالی اور دیر پا ترقی کے خواب کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ لیکن قرآئن بناتے ہیں کہ ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، مغربی معاشی نظام کی وجہ سے غریب، غریب تر اور امیر ، امیر تر ہو تے جارہے ہیں اک طرف غربت کے گہرے سمندر تو دوسری طرف خوشحالی اور دولت کے چند جزیرے ۔


عالمی سطح پرغربت کے خاتمے کیلئے کام کرنی والی تنظیم اوکس فیم کے مطابق دنیا کی پچاس فیصد آبادی کی دولت کے برابر دنیاکے آٹھ کھرب پتیوں کے پاس جمع ہے ،سابق صدر باراک اوبامہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران فر ما یا تھا کہ اس دنیا کے ایک فیصد کے پاس اتنی دولت ہے جتنی 99%لوگوں کی دولت ملا کر ہے اس صورت میں عالمی پائے داری کیسے ممکن ہے ؟ دنیا کے یہ بے بس انسان کیااسی سلوک کے مستحق ہیں، ان کے ساتھ غیر اخلاقی غیر انسانی سلوک ہی روارکھا جانا ضروری ہے انھیں انسانوں کی صف میں شامل کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے؟ کیا تعلیم ، روزگار ،انصاف ، خوشحالی ، ترقی اچھا معیار زندگی صرف صاحب ثروت ہی کو زیباہے، کیا اس طرح عالمی فورم پر اظہار خیال سے غربت کاخا تمہ، دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہے ؟ ۔

دنیا کے وسائل پر انکا کوئی حق نہیں کیا، وہ کھرب پتی بننے کی صلاحیت سے عاری ہیں ان کو تخلیق کرنے والے نے ان کیلئے کوئی نظام وضع نہیں کیا ہو گا ۔ نہیں ہر گز نہیں ، انکے خالق نے ایک مکمل معاشی نظام فراہم کیا ہے اس کے دعوی داروں پر بھار ی بھر ذمہ داری عائد بھی کی گئی کہ وہ دم توڑتی انسانیت کواوپر اٹھائیں ان کے سامنے وہ نظام معشیت رکھیں جو دولت کو محدود ہاتھوں میں جانے سے روکتا ہے۔


د نیا میں اک تہائی اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر یہ قرض بھی تھا اور فرض بھی کہ وہ اسلامی نظام معیشت کا ماڈل دنیا کے سامنے رکھتے، اسلام عارضی نہیں پائیدار ترقی کا حامی ہے جیسے وہ فوزو فلاح کا نام دیتا ہے ۔اگر مسلم ارباب اختیار نے اس نظام معیشت کو اپنی اپنی ریاستوں میں نافذ کیا ہوتا تو آج اسلام کی پہچان ایک انتہا پسند مذہب کے طور پر نہیں بلکہ اک فلاحی و سماجی معاشی نظام کے طور عالم کے سامنے آتی ، دنیا کے بڑے دولت مند وں کو انسا نی فلاح کیلئے سرمایہ خرچ کرنے کی ترغیب ملتی مگر کیا کہیے اسلامی دنیا میں ہی ایسے نامور دولت مندمو جود ہیں جنکاطر ز زندگی کسی طور پراسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا جنکی عیاشی، اسراف کی کہانیاں زدعام ہیں اور ایسے ارباب اختیار بھی براجما ن ہیں جواپنے حق اقتدار کو طوالت دینے کیلئے انسان سوز سلوک کر نے سے بھی اجتناب نہیں کر تے، ان کے ہاں بنیادی حقوق کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔

شاہی محلات کی تعمیر سے لے کر سونے کی کشتی کی خرید نے تک اور مغربی سیاحتی مقامات کی سیر سے لے کر دولت کے انبار لگانے تک کی "وارداتوں "سے یہود بھی شرما رہے ہیں۔اگر یہ بے بس انسانیت دنیا سے ایسی حالت میں خدا نخواستہ رخصت ہو گئی تو مسلم حکمران اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے جنھیں اس نے دنیا میں اپنا نائب مقرر کیا ہے ۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے شر سے البتہ یہ خیربرآمد ہوا ہے کہ عالمی سطح پر مقتدر طبقات میں اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ پائیدار اور ابدی ترقی کیلئے دولت اوروسائل کی تقسیم کو از سر نومر تب کر نا ہوگا ،اقوام متحدہ کے بیشتر ممالک نے تین سال قبل مذکورہ ترقی کیلئے جو اہداف مقرر کیے تھے ان میں سے غربت کا خاتمہ ، عالمی امن اور خوشحالی کویقینی بنا نا، فاقہ زد ہ زندگی سے نجات قابل ذکر ہیں ۔


قابل ستائش یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک خصوصی فورم میں اسلامی سرمایہ کاری کے ذریعے نئے نمو نہ جات اور جدید طریقوں سے عالمی ترقیاتی منصوبہ جات کے حصول کو ضروری سمجھا جار ہے ہے اور اسلامک فنانس کو زیر استعمال لانے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے، خوش آئندہ یہ بھی ہے کہ عالمی زکوة کے حصول وتقسیم اور مختلف اصناف ، مستحقین کی نشان دہی اور ان تک زکوة کی رقوم پہنچانے اور شفافیت کیلئے مالیاتی ٹیکنالوجی کااستعمال کرنے کی تجویز دی ہے ۔


عالمی امن ، مستقل پائیداری کیلئے ناگزیر ہے کہ انسان دوست معیشت کی تعمیر کی جائے جس سے سب مستفید ہوں دولت محض چند اشخاس ، افراد یا ممالک درمیان ارتکاز ہو کر نہ رہ جائے دنیا میں رائج معاشی نظام دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کر نے کا سبب بنتے رہے جوانسانیت کے لیے آسودگی کا سامان مہیا نہ کر سکے اور ناکام ہوئے، جس میں سوشلزم سر فہرست ہے اس کے برعکس وسائل کی منصفانہ تقسیم صرف اسلامی نظام معیشت سے ہی ممکن ہے ۔


عالمی زکوة فورم اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور بے بس انسانیت اس نظام ہی میں پناہ لے سکتی۔ اگر غربت بہت سے جرائم کو جنم دیتی ہے تو خوشحالی رکاوٹ بھی بنتی ہے۔
اب بھی اگر امت کے مقتدر طبقات مسلکی، فروعی، علاقائی مباحث سے بالا تر ہو کر اسلامی معاشی نظام کا اطلاق کرتے ہوئے پسے ہوئے طبقات کو اوپر اٹھائیں تو یہ بڑی انسانی خدمت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :