چلڈرن ہسپتال ملتان کی انتظامیہ کے لئے

پیر 8 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جس طرح صحراء میں بھٹکے مسافر کے لئے تھوڑے سے پانی کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اس طرح کسی مریض کے لئے بڑی نعمت طبیب ہی ہوتا ہے،ہر چند زندگی اور موت کے فیصلے اوپر والا کرتا ہے لیکن ڈاکٹر کسی مریض کے لئے اُمید کی کرن ہوتا ہے،سانس کی چلتی ڈوری زندگی کا پتہ دیتی ہے،یوں تو ہر مریض ڈاکٹر کے لئے بڑا اہم ہوتا ہے،لیکن جسکی حالت خدا نخواستہ غیر ہو رہی ہوتی ہے وہ زیادہ توجہ کا مستحق ہوتا ہے،ہمارا شعبہ صحت اپنا الگ کلچر رکھتا ہے،ادویات کی فراہمی سے لے کرمریض کی عیادت تک اس کے پیمانے مختلف ہیں۔


فی زمانہ جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلیاں آرہی ہیں یہ انسانی خدمت کا شعبہ کیسے اِن سے مبراء ہو سکتا ہے،بنیادی مراکز صحت سے لے کر بڑے بڑے ہسپتال سرکار کی زیر نگرانی میں خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہر مریض کی ضروریات پورا کرنا محال ہوتا جارہا ہے، اسکی ایک وجہ تو وسائل کی کمی بھی ہے،جس کا فائدہ ڈاکٹرز کی ایک کلاس نے اٹھا کر پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے شفاخانے تعمیر کر دیئے ہیں جس میں صاحب ثروت افراد علاج کروانے کو لازم خیال کرتے ہیں،مخیر حضرات نے بھی دُکھی اِنسانیت کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرسٹ کے زیر اہتمام بھی کچھ ہسپتال بنا رکھے ہیں جہاں مڈل کلاس سے وابستہ مریض علاج معالجہ کرواتے ہیں،تحقیق کے عمل نے اس شعبہ میں بھی سپیشلا ئزیشن کی تعلیم کو آگے بڑھایا ہے قریباً ہر اِنسانی عضو کا الگ الگ معالج ہونا اب وقت کا تقاضہ ہے،اِنکی محدود تعدادنے انکی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے،سرکاری شفاخانوں میں اِنکی ہر وقت موجودگی ممکن نہیں بنائی جاتی، چھوٹے شہروں میں تو یہ خال خال ہی میسر آتے ہیں، اس لئے ضلعی مقامات پر قائم ہسپتالوں میں عام مرض ہی کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ کسی خاص مرض کے مریض بڑے شہروں میں ریفر کر دئے جاتے ہیں، جہاں سہولیات میسر ہوتی ہیں،۔

(جاری ہے)


 مریضوں کی بھاری بھر تعداد کی بدولت ہر مریض پر توجہ مرکوز کرنا ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ہوتی، اس لئے بعض اوقات انکے لواحقین کے صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہو جاتا ہے،اسکی وجہ بسا اوقات ڈاکٹرز نہیں ہوتے بلکہ انتظامی اُمور ہوتے ہیں،بڑھتے ہوئے شعبہ جات کے باعث اب کسی ڈاکٹر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ طبی اور انتظامی کام بیک وقت انجام دے،اس لئے بڑے شفاخانوں میں اس مقصد کے لئے الگ الگ ایڈ من تعینات کے جاتے ہیں۔


عالمی سطح پر تو ڈاکٹرز پر سے کام کا بوجھ ہٹانے کے لئے الگ سے فارماسسٹ، ماہر غذایات تعینات کے جاتے ہیں،ہمارے ہاں بھی نیاڈرگ ایکٹ جزوی طور پر نافذالعمل ہے،بیماریوں کی بڑھتی تعداد اور غذائی مشکلات اور اس سے پیدا بیماریوں کی بدولت
 ہسپتالوں میں فارماسسٹ، اور غذائی ماہرین کی موجودگی اب لازم ہو جائے گی، جس سے ڈاکٹر کو بھی ریلیف ضرور ملے گا۔

اس ضمن میں ناگزیر ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ اتحصیل طلباء وطالبات کو بھی ہاوس جاب یا اپرنٹر شپ کی طرز پر ٹرینیگ دے کم از کم دیہاتی علاقہ جات میں ملازمت فراہم کی جائے تاکہ وہاں کی آبادی کو علاج کے لئے مستند افراد ی قوت مل سکے اور انھیں اطائی
 معالجین سے نجات ملے۔
گذشتہ دنوں حلقہ احباب میں سے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا، پرائیویٹ ہسپتال میں زچہ بچہ موجود تھے نومولود کی صحت کے مسائل کے پیش نظر پیدائش کے بعد بچے کو چلڈرن ہسپتال لے جانا پڑا،جو مشکلات انھیں در پیش تھیں ،انکو کالم کے ذریعہ متعلقہ حکام کے نوٹس میں لانا اس لئے لازم ہے تاکہ اصلاح کا کوئی پہلو نکل آئے۔


اِنکا موقف تھا کہ عمومی طور پر بچے ملتان کے ہسپتالوں کے علاوہ جنوبی پنجاب سے بھی ایمرجنسی کی صورت میں اِس شفاخانے میں لائے جاتے ہیں یہ جنوبی پنجاب کا واحد بڑا قابل بھروسہ ادارہ ہے،لیکن داخل ہوتے ہی پرچی لانے کا حکم صادر ہوتا ہے، پریشانی کے عالم میں یہ مرحلہ والدین کے لئے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے، بالخصوص اِس وقت جبکہ ایک بڑی قطار لواحقین کے سامنے ہو،جب تلک باری آتی ہے بچے کی تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے، چیک اپ کا اگریہ مرحلہ طے ہو جائے تو وارڈ میں داخلہ کے لئے پھر سے پرچی بنوانا پڑتی ہے،اس قرب کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس ”پل صراط“ کو عبور کرتا ہے،لہذا بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے بچے کے علاج کو فوقیت دی جائے دفتری امور بعد میں نمٹا لئے جائیں،یا اسکا قابل قبول حل نکالا جائے جس سے بچے کا علاج متاثر نہ ہو۔


ایک اور مسئلہ بھی قابل توجہ ہے،وہ یہ کہ نومولود بچے جن کو آئی سی یو میں داخل کیا جاتا ہے،انکی فیڈ کے لئے اِنکی ماؤں کو وارڈ میں جانا پڑتا ہے،وہاں ا ِنکے قیام کی کوئی مناسب جگہ نہ ہے، یہ واقع بھی دوسری منزل پر ہے جہاں جانے کے لئے سیڑھیوں سے گزرنا پڑتا ہے،ذرا تصور میں لائیں زچگی کے مرحلہ سے گذرنے والی نومولود کی ماں جس کا آپریشن بھی ہوا ہو اس کے لئے یہ مرحلہ کتنا دشوار گذار ہو گا؟دوسری بڑی انتظامی کمزوری یہ ہے کہ اس منزل پر نہ تو لفٹ نصب ہے نہ ہی واش رومز ہیں۔

ضروری حاجت کے لئے بار بار نیچے آنا اور مدر فیڈ کے لئے پھر دوسری منزل پر جانا کس قدر مشکل کام ہے کیا یہ تکلیف دہ معاملہ انتظامیہ کے علم میں نہیں ہے؟ اگر یہ تصور طے کر لیا جائے کہ مالی وسائل کی کمی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے سماج کے مخیر حضرات کو دعوت دی جائے ہمارا گمان ہے کہ اگروہ اسکو اپنی خوش بختی خیال کریں گے۔
چلڈرن ہسپتال جنوبی پنجاب کا بڑا ہسپتال ہے اس پر ورک لوڈ بھی زیادہ ہے،اسلئے ممکن ہے کچھ انتظامی بد نظمی ہو گئی ہو، تاہم علاج معالجہ میں ڈاکٹرز کی خدمات لائق تحسین ہیں، راقم کو بھی کسی نہ کسی حوالہ سے یہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے،اس ادارہ پر سے لوڈ کم کرنے کا ایک راستہ تو یہ ہے کہ ہر ضلعی مقام پر معیاری بچوں کا شفاخانہ ہو تاکہ کسی مریض بچے کو لمبی مسافت کا دُکھ نہ اٹھانا پڑے۔


 ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بچوں کا وارڈ بھی ہوتا ہے لیکن وہاں کی انتظامیہ اِنکو چلڈرن کمپلیکس بھیجنے ہی میں اپنی عافیت خیال کرتی ہے،تاہم بڑے اور بچوں کی صحت یابی کا راستہ اِس شعبہ کے میزانیہ میں اضافہ سے ہو کر گذرتا ہے تاکہ نومولود کی ماں کو حالت زچگی میں دوہری اذیت سے نہ گذرنا پڑے۔نجانے عوامی نمائیدگان اپنی مراعات کیساتھ صحت کے بجٹ میں کب اضافہ کی نوید سنائیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :