خرافات

منگل 23 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہفتہ رفتہ میں چند ایسے واقعات سماجی سطح پر رونما ہوئے ہیں جن کی باز گشت تاحال سنائی دے رہی ہے،انکا تذکرہ سوشل میڈیا پر بھی تواتر سے ہو رہا ہے،اس لئے انکی حمایت اور مخالفت میں اٹھنے والی آواز نے سرکار کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے،کچھ کالم نگاروں نے بھی اس پر قلم آزمائی کر کے معاملہ کی سنجیدگی کی جانب توجہ مبذول کرانے کی جسارت کی ہے،ایک ایسا سماج جو اپنا مشرق کلچر رکھتا ہو،اسکی وابستگی ایک ایسے مذہب سے بھی ہو جس کو نہ صرف دین فطرت کہا جاتا ہوں بلکہ مکمل نظام حیات تسلیم کیا جاتا ہو، مذہبی تعلق جذباتی ہی نہیں شعوری بھی ہو تو ایسی خرافات سنجیدہ حلقوں کے لئے باعث تکلیف ہوتی ہیں۔


پہلا واقعہ تو لاہور کی ایک نجی جامعہ میں پیش آیا جہاں ایک جوڑے نے فلمی انداز میں ایک تعلیمی درس گاہ کے تمام قانونی، اخلاقی قواعد ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بہت سے طلباء و طالبات کی موجودگی میں ایک دوسرے کو پرپوز کرتے ہوئے نہ صرف پھول پیش کئے بلکہ وہ حرکات و سکنات کیں جن کو مذہبی، سماجی، اخلاقی طور پر شرف قبولیت حاصل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

جامعہ کی انتظامیہ نے عوامی رد عمل دیکھ کر انھیں فوری طور پر جامعہ سے نکال باہر کیا، اس پر بااثر سیاسی اور سماجی شخصیات کا ردعمل آیا اور جامعہ کے فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا لیکن اہل دانش کی غالب اکثریت نے جامعہ کے فیصلہ کی تحسین کی اور کہایہ عمل سماج کی اخلاقی اقدار کو دانستہ پامال کرنے کی جانب پہلا قدم ہے ،سرکار کو تعلیمی ادارہ جات میں ایسا کرنے کی روک تھام کا مشورہ دیا خدانخوستہ یہ سلسلہ کہیں دراز نہ ہو جائے۔


 نجانے والدین کی مشاورت سے اس جوڑہ نے یہ فعل کیاہے اور جامعہ سے لڑکے ،لڑکی کے اخراج کے بعد والدین کا کیا رویہ ہے اس پر راوی خاموش ہے،نہیں معلوم ان بچوں کو گھر میں ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی کہ انھیں پورے سماج کے سامنے پرپوز کرنا پڑا ”خود ساختہ منگنی“ اتنی مہنگی پڑی کہ تعلیمی مستقبل ہی داؤ پر لگ گیا۔
لاہو ر کی سرزمین پر اس سے پہلے بھی ایک فلمی جوڑہ نے ایک مسجد میں فلمی گانا فلمانے کی حماقت کی تھی، عوام کے شدید غم وغصہ کے بعد انھوں نے معافی مانگ لی تھی، تعلیم یافتہ طبقہ دانستہ طور پر ہماری اقدار سے کھیل کر کیوں تسکین حاصل کرتا ہے، کسی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنی عزت کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے بعداَزاں اِنکو شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔


اس سے ملتی جلتی ایک سرگرمی وفاقی دارالحکومت میں” عورت مارچ“ بھی دیکھنے کو ملی ہے، اس کے شرکاء گذشتہ سال کی طرح اب بھی زیر عتاب رہے اِس برس بھی اُنھوں نے وہی حماقت دہرائی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ کسی زبان بولتے ہیں، کسی کی فکر کو یہاں نافذ کرنے کے آرزو مند ہیں،عورت کی پریشانی سے کسی کو مفر نہیں لیکن اگر خدا لگتی بات کی جائے تو ہمارے سماج کی عورت مغربی معاشرہ کے مقابلہ میں تو”شہزادی“ معلوم ہوتی ہے، خاندان کے تمام رشتے اس کو دل وجان سے عزیز رکھتے ہیں، اِسکی عزت، ناموس کی حفاظت کرتے ہیں ،اِسکی ضرویات کو پورا کرتے ہیں، اگر کہیں سقم ہے بھی تو اِس کے لئے آواز اٹھانے کا یہ طریقہ قطعی درست نہیں جو ان چند خو اتین نے اپنایا ہوا ہے، کیا اِ نکے علم میں نہیں کہ مردوخواتین کے مسائل کی بڑی وجہ قومی وسائل
کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، اس کے باعث بچیوں کی قابل ذکر تعداد تعلیمی اداروں سے باہر ہے،لیکن اس پر انھیں لب کشائی کرتے ہم نے نہیں دیکھا، اگر تعلیم یافتہ سماج ہو گا تو حقوق کا شعور اور فراہمی از خود ممکن ہو جائے گی، اس قماش کی خواتین سال بھر ایک” متنازعہ شو“ کرنے ہی کو کافی سمجھتی ہیں ان کے دل میں عورت کوحقوق دلوانے کا اگر سچا جذبہ ہے تو انھیں سماجی، معاشی، اخلاقی ناہمواریوں پر سال بھر کام کرکے اصل حقیقت کو قوم اور عوام کے سامنے لانا ہو گا، نیز ایسے سلوگن سے ا جتناب کرنا لازم ہے جنکی زدمیں ہماری مذہبی احکام اور اقدار آتی ہیں، اس میں ہی انکی توقیر ہے ۔


تذکرہ خرافات میں اگرچہ کچھ نجی قسم کی شادی تقریبات ہیں جن کے منفی اثرات معاشرہ پر مرتب ہونے کے امکانات ہیں، جس میں اول الذکر پیسے کا بے دریغ استعمال ہے جو ارض پاک کے مختلف حصوں میں انجام پائی ہیں دولت کے بے پناہ خرچ سے اِنکو اعلیٰ و ارفع بنانے کی جان بوجھ کر حماقت کی ہے تاکہ پورے معاشرہ میں اپنی داغ بٹھائی جائے ممکن ہے ان خاندانوں نے اپنے طور پر اس” سٹیٹس“ کو درست سمجھ لیا ہو لیکن ہمیں اَپنا طرز زندگی جانچنے کے لئے جو کسوٹی دی گئی ہے وہ بنی آخرزمان کی حیات مبارکہ ہے جس میں غم اور خوشی کے اظہار کے پیمانے مقرر ہیں اگر یہ تقریبات اِس پر پورا اترتی ہیں تو کسی کو بھی اس پر زبان دارزی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن اگر یہ اس سے کوسوں دور ہیں تو پھر اس پر ہر ذمہ دار شہری بات کر نے کا حق محفوظ رکھتا ہے، کیونکہ امیر کبیر خاندانوں کے عمل سے عام اور غریب شہری کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔


معروف موٹیویشنل سپیکر کا کہنا ہے ، ہمارے ٹی وی ڈرامے خواتین کے لئے وہ انسٹی ٹیوشن ہیں جہاں طلاق، گھریلو جھگڑوں ،دولت کی نمائش، اور فضولیات کی مفت تعلیم دی جاتی ہے، پروفیسر اشفاق مرحوم نے ایک ڈرامہ ٹی وی کے لئے رقم کیا جس میں امیر خاندان کے گھر نوکرانی کی بیٹی کی موت کو دولت کی نمائش کی وجہ بتا کر سماج کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ترغیب دی گئی تھی ،جس شادی کا تذکرہ کالم کا حصہ ہے وہ ”ولایئتی راجہ“ کی ہے جو آزادکشمیر کنٹرول لائن کے قریب دیہات میں ہیلی کاپٹر پر برات لے کر گئے تھے،جن کا خاندان تین نسلوں سے برطانیہ مقیم ہے، اس نوع کی حرکت منڈی بہاوالدین میں کے گئی جہاں بارات پر ہیلی کاپٹر سے پھول اور پیسے نچھاور کئے گئے، اس طرح نارووال میں بھی شادی کے موقع پر کئی لاکھ روپئے گھر کی چھت سے بہائے گئے اور عوام کے لئے لوٹ سیل لگائی گئی، چند ماہ قبل گوجرانوالہ کی کاروباری شخصیت نے اس طرح کی مہنگی شادی کا اہتمام کیا تھا جس میں معترب مذہبی شخصیت نے بھی شرکت کی ،جو عوامی تنقید کی زد میں بھی آئے۔


ایک یسا معاشرہ جس کی 40 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو، لاکھوں بیٹیاں وسائل نہ ہونے کی بناء سماج کی فرسوردہ سرمات کی زد میں شادی سے محروم ہوں وہاں ، مہنگی شادیوں کا انعقاد اورپذیرائی کرنا غریب والدین کے جذبات سے کھیلنے کے مساوی ہے۔
ایک طرف ریاست مدینہ کا نعرہ بلند ہو رہا ہے تو دوسری طرف سر بازار وہ خرافات جاری ہیں جس میں اسلامی، اخلاقی، معاشی، تہذیبی اقدار کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے، یہ فعل آئین، قانون سے کھلواڑ کر نے کے ہم معنی ہے جہاں افراد، ریاست اور قانون سے خود کو طاقتور خیال کر رہے ہیں، اگر انکو روکنے کی قانون سازی نہ کی گئی یا قانون کی عمل داری کو یقینی نہ بنایا گیا تو پھر ہر طاقت ور فرد قانون کو ہاتھ میں لینے کی حماقت کو اپنا حق تصور کرے گا۔

جس کا راستہ سیدھا خانہ جنگی کی طرف جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :