
جھونپڑی
منگل 28 ستمبر 2021

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
ہم یہ منظر سرکاری بالائی منزل سے دیکھ رہے تھے ، ہم نے اردگرد آبادی پر نگاہ دوڑائی تو بچوں کو گلیوں میں پانی میں کھیلتے دیکھا، کچھ شرارتوں میں مصروف تھے، دوران بارش بہت سے نوجوان نہانے میں مگن تھے اکثر اس سہانے موسم سے لطف اندوز و رہے تھے، بعض نے اسکی مناسبت سے میوزک بھی چلا رکھا تھا، کچھ صنف نازک اپنے گھروں کی چھتوں پر براجمان تھیں اور چائے پی کر اچھے موسم کی رونق کو دوبالا کر رہی تھیں، اس موسم سے صرف وہی لطف اندوز ہورہے تھے جو بلندو بالا عمارات کے مکیں تھے جن کے مکان خستہ حالت میں تھے اِنکی جان پر بنی ہوئی تھی، آبادی سے بلند ہونے والی آوازیں اس سارے منظر کی کہانی بیان کر رہی تھیں، اس بارش نے سماج کے تمام طبقات کو نمایاں کر دیا تھا،دولت مندوں کے چہرے کھلے کھلے تھے، حالت غربت میں جینے والوں کے چہروں پر فکر مندی نمایاں تھی، ان میں سب سے نازک معاملہ تو جھونپڑی میں اس خاندان کا تھا جو آسمان سے باتیں کرتی عمارات کے درمیاں بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
محلات میں مقیم بچوں کو تو یہ سہولت بھی حاصل ہوتی ہے، کہ انھیں مخمل کے گرم بستر دستیاب ہوتے ہیں، بارش میں سردی لگنے کا امکان ہو تو مائیں فوراً شہد کھلا سکتی ہیں،انڈہ اور گرم دودھ سے تواضع کی جاسکتی ہے، معاملہ ذرا بگڑنے لگے تو ڈاکٹر تک رسائی کر نا انتہائی آسان ہے، لیکن یہ سب کچھ جھونپڑی میں مقیم بچوں کا مقدر کہاں؟ کیا اللہ تعالی ٰ نے ایسی ماؤں کا دل سخت رکھا ہے جو اپنے بچوں کے ہر غم کو سہہ لیتی ہیں، وہ شکوہ کناں ہو ں بھی تو کس سے، ارباب اختیار کے پاس تو معقول بہانہ ہے کہ اس قماش کے لوگ
ایک جگہ قیام کریں تو انھیں بھی دیگر شہریوں کی طرح بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔اس طبقہ کے بچے ان معروضی حالات ہی کو اپنا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں، انھیں کیا معلوم کہ اسلامی تاریخ میں ایک ایسا بھی حکمرا ن گذرا ہے جو اپنے کندھے پر آٹا اٹھا کر جب بڑھیا کے پاس جاتا ہے تو ہاتھ باندھ کر فریاد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت نہ کرنا ورنہ عمر ہلاک ہوجائے گا، ان بچوں نے تو اسی ماحول میں آنکھ کھولی، اپنے آباؤ اجداد کو حالت سفر ہی میں دیکھا۔
اردگرد خوبصورت عمارات کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ آرزو تو جنم لیتی ہو گی کہ کاش وہ بھی اس طرح کی پر تعیش کمروں میں سو سکتے، موسم کی حدت اور شدت سے بچ سکتے، انھوں نے خود کو ایسے در پر بھیک مانگتے ہی پایا، کیا اللہ ہی نے اِنکا مقدر ایسا لکھا تھا، انھیں کیا معلوم کہ اس ریاست کے وسائل پر انکا بھی حق ہے یہ تو اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ اس ریاست کی اقلیت کے تسلط میں زیادہ جبکہ اکثریت کے پاس کم قومی وسائل ہیں۔
انھیں تب ہی معلوم ہو سکتا تھا اگر ان بچوں کو کسی مدرسہ میں پڑھنے کے مواقع میسر آتے، تب یہ کسی سے سوال بھی کرتے، ان بچوں نے اپنے بڑوں کو کسمپرسی کی زندگی گذار کر لہد میں اترتے دیکھا ہے، گمان ہے کہ جب اس سماج میں کسی عفت مآب بہن یا بیٹی کی عزت کے حوالہ سے میڈیا پر چرچا کیا جاتا ہے تو اِنکے زخم بھی تازہ ہو جاتے ہیں، انھیں وڈیروں، جاگیر دارروں اور بگڑے نوابوں کے ہاتھوں اپنی عزت پر لگے داغ یاد آجاتے ہیں ،یہ بھی اپنی آنکھوں سے اس طرح کے عیاش لوگوں کو سزا ملتی دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اس ریاست کا انصاف اور غربت اِنکے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے، انکی بچیاں اس گوبل ولیج میں بھی غلامی کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہ بھی ہزاروں خواہشیں سینے میں دفن کر کے خود زیر زمین ابدی نیند سو جاتی ہیں کس کس برانڈ کی ہاوسنگ سوسائٹیاں یہاں بن رہی ہیں، سرکار نے مکانات کی تعمیر کے لئے عام شہری کے لئے کونسی سکیم فنانشل لانچ کی ہے یہ اس سے بھی لاعلم ہیں۔
ایک ہی ریاست ہم شہری ہیں آئین پاکستان کے مطابق ہمارے یکساں حقوق رقم ہیں لیکن زمینی حقائق بتا تے ہیں کہ یہ ہر گز کتابی معاشرہ نہیں ہے یہاں ہر کسی کو اپنا اپنا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے،دوست نے جھونپڑی سے پانی نکالتی بچوں کی ماں کو دیکھ کر کہاکہ انکے حقوق کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی، انھیں تیسرے درجہ شہری کیوں خیال جاتا ہے، اِنکی حالت اس وقت دیدنی ہوتی ہے جب کوئی وڈیرہ، زمین کا مالک انھیں کوچ کر جانے کا حکم دیتا ہے، ایسے قبیلوں پر نجانے کتنی ڈاکومنٹری بن چکی ہیں کسی کو بھی ان کی حالت زار پر رحم نہیں آیا، ٹھنڈے کمروں میں برا جماں این جی اوز کے نمائیندے موسم کی حدت اور شدت میں دیکھیں کہ انکے بزرگوں پر کیا بیتتی ہے۔انکا شمار بزرگ شہریوں میں کیوں نہیں ہوتا؟
دوست گویا ہوا کہ روایت ہے،کہ مدینہ میں کسی صحابی کاعالی شان مکان نبی مہربان نے دیکھا تو مسجد نبوی میں اس پر خفت کا اظہار کیا، دلیل یہ دی کہ جب مسلمانوں کی حالت معاشی طور پر ناگفتہ بہہ ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی دل آزاری کرے،کہا جاتا ہے کہ جب صحابی رسول کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے اس گھر کو اپنے ہاتھوں سے گرا دیا،محلات میں مقیم مقتدر طبقہ اس لاچار طبقہ کے بچوں پر کب ترس کھائے گا، کہ یہ بھی کبھی خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہو سکیں اور انھیں اپنے ہی جھونپڑی میں اپنے اور اہل خانہ کے ڈوبنے کا قلق نہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.