دوانتہاوٴں پر کھڑی قوم

منگل 1 مارچ 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے منظور کئے گئے پنجاب اسمبلی کے بل پر مذہی حلقے اور حقو ق نسواں کے نام نہاد علمبردار دونوں ہی الگ الگ انتہاوٴں پر کھڑے ہیں۔میں تو آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی موجودگی میں حقوق نسواں !چہ معنی؟کیا یہ خواتین کو انسانیت کی صف سے نکالنے کی سازش ہے یا کچھ اور؟ بہر حال ! حقوق نسواں کے علمبردار اس بل کی منظوری کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف صف ماتم کا سماں ہے۔

محترم حافظ سعید نے اس بیان کو قرآن و سنت کے سراسر خلاف قرار دیا ہے ۔ اب ظاہر ہے اس پر گفتگو تو ہو سکتی ہے کہ کیسے یہ قانون اسلام کے خلاف ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کا پارہ تو بہت ہائی لگتا ہے ۔اپنے فتوے میں انہوں نے پنجاب اسمبلی کو ”زن مریدوں کا گھر“ قرار دیتے ہوئے ایک تجویز پیش کی ہے کہ پنجاب اسمبلی لمبے چوڑے بل کی بجائے صرف یہ قانون پاس کر دے کہ شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر کہا جائے۔

(جاری ہے)

ذرا تصور کیجئے مولانا کی تشویش کا ! تشویش ہونی بھی چاہیے کہ اس قانون کے نفاذ سے پنجاب میں بسنے والے مولانا کے عقیدت مند وں کا کیا حال ہوگا۔آئے دن مولانا کے پاس ایسے عقیدت مندوں کا رش لگا ہوگاجو بیویوں کی مارپیٹ سے تنگ آکر مولانا کے ہجرے میں رہائش کے متمنی ہوں گے کہ اس صورت میں پٹائی سے بھی جان چھوٹے گی اور دین کی خدمت کا ثواب الگ ۔

مولانا کے بعض عقیدت مندوں کے گھروں کے مناظر کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ خاتون خانہ تو آرام سے مسہری پر براجمان ”بہشتی زیور“ کا مطالعہ فرما رہی ہیں اور حضرت بچوں کے لئے دودھ گرم کر رہے ہیں یا ان کے پوتڑے صاف کر رہے ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ برتن دھوتے سمے چہرہ کھجانے سے بعض حضرات کے رخ انور پر کالک لگ جائے۔ اس ظالم قانون کی زد سے بچنے کے لئے ہو سکتا ہے مولانا کے بہت سے عقیدت مند پنجاب سے دوسرے صوبوں یا قبائلی علاقوں میں ہجرت کر جائیں اور ان کے بیوی بچے ان کی تلاش کے لئے خادم پنجاب کی ماتحت پنجاب پولیس کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

قارئین !آپ تو اس منظر کشی سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ اس گستاخی کی پاداش میں میرے اوپر کوئی فتویٰ لگ جائے اس لئے میں آپ کی خدمت میں اصل مدعا پیش کردیتاہوں ۔
کالم لکھنے سے پہلے میں نے ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کو فون کیا جو باشرع ہیں اور میری معلومات کی حد تک خوش اخلاق اورپانچ وقت کے نمازی بھی ہیں۔

میری خوش فہمی تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی اہلیہ کی مارپیٹ نہیں کی ہو گی لیکن ان کے رائے میں اسلام نے بیوی کو ایک حد تک مارنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔کمال مہربانی سے انہوں نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ان کے علاقے میں توبیوی کو دو چارلگائے بغیر گزارا نہیں اور وہ خود بھی ماشا اللہ چار پانچ بار یہ ناگوار فریضہ ادا کر چکے ہیں۔

ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار صرف مذہبی گھرانوں کی خواتین ہوتی ہیں ۔ میر ی ایک محترم دوست جو حقوق نسوں کی بڑی علمبردار ہیں وہ خود ایک سیاستدان کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا شکا ر بن چکی ہیں لیکن یہ سیاستدان غلام مصطفےٰ کھر نہیں ہیں۔
خاکسار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی معاملے میں رائے قائم کرنے سے پہلے کسی ” علم والے “سے بات کر کے کچھ سیکھ لینا چاہئے ۔

کراچی میں رونق افروز درویش خدا مست خواجہ شمس الدین عظیمی یاد آئے ،ہمیشہ جنہوں نے مساوات انسانی کی بات کی اور اپنے عقیدت مندوں میں اس بات کا پرچار کیا کہ عورت اور مرد میں سوائے جسمانی ساخت کے کوئی فرق نہیں ،خالق کائنات نے دونوں کو بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں اور اس کے ہاں مرد اور عورت کی نیکی اور بدی ایک برابر ہے۔
قارئین !بیوی یا خاتون پر ہاتھ اٹھانے کی ساری کہانی ایک آیت کی من پسند تشریح سے گھڑی گئی ہے جس کی وجہ سے مغرب پسند حلقوں کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا ہے۔

سورة نسا کی آیت نمبر چونتیس جس سے خواتین پر تشدد کا جواز نکالا جاتا ہے اس کو پورا پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔
ترجمہ:” نیک عورتیں فرمانبردار اور مردوں کی غیر موجودگی میں اپنی عصمت (مال،عزت اورحقوق )کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں۔اور وہ عورتیں جو”سرکشی “کریں، تم ان کو نصیحت کرو اگر نہ سدھریں تو ان سے اپنے بستر الگ کر لو اور اگر وہ پھربھی نہ سمجھیں تو پھر ان کو مارو“۔


سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اس آیت کے مطابق ”سرکش عورت“ کون ہے۔آیت کا مفہوم واضح ہے کہ ” سرکش عورت وہ ہی ہے جو عصمت کی حفاظت نہ کرے“۔قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عورت کی عصمت کیا ہے اور اس کی حفاظت نہ کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اب عصمت کی حفاظت نہ کرنے والی عورت کے بارے میں قرآن تو یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو زبان سے سمجھاوٴ، نہ سمجھے تو اس سے علیحدگی اختیار کرو اور آخری درجے میں ا س کو مارو۔

ا ب ”مارنے “ کی تشریح جو میں فقہا سے سمجھا ہوں اس کے مقابلے میں تو ایک تھپڑ بھی تشددکے زمرے میں آتا ہے اور خواتین پر تشدد کی جتنی ممانعت اسلام نے کی ہے و ہ کسی اور مذہب یا سماج نے نہیں کی۔مذکورہ آیت کے لفظ ”واضربو“ کا ترجمہ ”مارو“ کیا گیا ہے ،لیکن خیال رہے کہ عربی زبان میں اس کا ایک مطلب بیان کرو ،تشریح کرو یا کھل کر بتاوٴ بھی لیا جاتا ہے۔

زیادہ وضاحت کے لئے اگر آیت پینتیس کا مطالعہ کریں تو اس میں ذکر ہے کہ تنازعہ کی صورت میں مرد اور عورت کے خاندان میں سے ایک ایک ثالث مقرر کیاجائے تاکہ اختلافات کا خاتمہ ہو۔ یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ بات چیت یا ثالث مقرر کرنے سے پہلے ”مارنے“ یا تشدد کرنے کی اجاز ت اسلام کیسے دے سکتا ہے؟اسلام نے جہاں کہیں بھی طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے وہ انتہائی محدود اور بہت سی شرائط کے ساتھ دے رکھی ہے ۔

تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سماج کے بنیادی یونٹ گھر کے بارے میں اسلام اتنی آسانی سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجاز ت دے ۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہو م یہ ہے کہ ”عورتیں آبگینے (بلبلے) ہیں ان سے نرم روی اختیار کرو“۔لفظ آبگینے پر غور کیجئے کہ عورت کو(بلاتخصیص رشتہ) کس قدر نرم ،لطیف ،نازک اور خوبصورت قرار دیا گیا ہے ۔اب جو ہستی عورت کو ایک بلبلے کی مثال دے کر سمجھا رہی ہے اور اس سے نرم سلوک کی تلقین کر رہی ہے اس سے یہ بات منسوب کرنا کہ عورت کو مارنے کی اجاز ت دے رکھی ہے کس قدر ناانصافی اور ظلم کی بات ہے۔

ایک صورت یہ ہے کہ عورت پھر بھی نہ سمجھے اور سرکشی سے باز نہ آئے توا سلام اس صورت میں بھی شوہر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اس پر حد لاگو کرے بلکہ وہ مرد کو طلاق کا اختیار دیتا ہے ۔ حد نافذ کرنے کا اختیار صرف اورصرف ریاست کو ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حقوق نسواں یا آزادی کے نام پر خواتین کو شتر بے مہاری کا لائسنس دے دیا جائے اورماڈرن کہلانے کے شوق میں سماج اورشرافت کی ہر حد پار کر لی جائے۔

عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی گناہ یا جرم کی بات نہیں ہے لیکن اخلاقیات سے انکار کسی بھی مذہب کو نہیں اور ہر سماج اپنے شہریوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا پورا پورا خیال رکھیں تاکہ معاشرے کے تاروپود نہ بکھر نہ جائیں اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو کم از کم اسلامی سماج تو کسی بھی اخلاقی برائی کی سب سے پہلے پردہ پوشی اور پھر حکمت کے ساتھ اس کا سدباب کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔

اسلام کسی بھی صورت میں خواتین پر تشدد یا مرد کی تذلیل کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ہر فرد کی عزت کی حفاظت کا ضامن ہے۔لہذا خاکسار کی رائے میں توگھریلو تشد د کے خاتمے کے لئے تعلیمی اداروں ،علما ء حق اور خود والدین کا اپنا کردا ر ادا کرنا چاہیے ۔سماجی دباوٴ کی طاقت اس مسئلے کا بہت موٴثر حل ہے کیونکہ اس قانون کے نفاذ سے گھر یلو معاملات میں پولیس کی دخل اندازی کاراستہ کھلے گا ،اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ گھریلو معاملات میں پولیس کی دخل اندازی سے خاندان کی بہتری کی راہ کھلے گی یا ایک اور بگاڑ پید ا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :